Maktaba Wahhabi

40 - 78
تمام اعتراضات کا اچھی طرح ردّ کرتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی صحت کو خوب واضح کر دیا ہے۔اس( تنقید و تنقیح )کے بعداب میرا صحیحین کی کسی سند پر کلام کرنا،بے فائدہ ہے ۔صحیحین کے تمام راوی پل پار کر چکے ہیں اوران کے بارے میں قیل و قال کی گنجائش ختم ہو گئی ہے اور وہ اس مرتبے سے اوپر ہو چکے ہیں کہ ان کی ذات میں کسی قسم کا کلام کیاجائے۔‘‘ ٭ ایک اور جگہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الإجماعات تندفع کل شبھۃ وتزول کل تشکیک (قطر الولی: ص۲۳۰) ’’پس اہل فن کا اس پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کتاب کی تمام احادیث کی صحت اس ’تلقی بالقبول‘سے معلوم ہے جو اِجماع سے ثابت ہے اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور ہر قسم کا شک دور ہو جاتا ہے۔‘‘ ٭ جیسا کہ ہم اس مضمون کے شروع میں یہ ذکر کر چکے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعویٰ یہ ہے کہ ان میں موجود تمام روایات محدثین کے تعین کردہ اُصول حدیث کی روشنی میں صحیح حدیث کے معیار پر پوری اترتی ہیں ۔لہٰذااگر کوئی شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کوئی روایت ضعیف ہے تووہ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ کی تحقیق کو چیلنج کر رہا ہے،اور اگر تو ایسا ناقد امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ کے پاے کا محدث نہیں ہے جیسا کہ عصر حاضر کے ان متجددین کا معاملہ ہے کہ جن کا ذکر اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے،تواس کی صحیح بخاری و صحیح مسلم پریہ تنقید مردود ہو گی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : من انتقد علیھما یکون قولہ معارضا لتصحیحھما ولا ریب في تقدیمھما في ذلک علی غیرھما فیندفع الاعتراض من حیث الجملۃ (ہدی الساری مقدمہ فتح الباری، ص۳۴۷) ’’جس نے بھی صحیح بخاری وصحیح مسلم پر تنقید کی، اس کا قول امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ کی تصحیح کے معارض ہو گا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ و امام مسلم رحمہ اللہ اس مسئلے میں باقی محدثین پر مقدم ہیں ، اسلئے من جملہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر تمام اعتراضات دور ہو جاتے
Flag Counter