بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر کیا ہسپتال اور NGOsزکوٰۃ کا جائز مصرف ہیں ؟ پاکستانی معاشرے میں جوں جوں دین سے تعلق کمزور پڑتا جارہا ہے، توں توں لوگوں کے رجحانات میں بعض غیرمعمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ ہم اپنے گرد وپیش ایک نئی چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اندر ہی اندر اس کو عجیب سمجھتے ہوئے اجنبیت محسوس کرتے ہیں ۔ لگتا ہے کہ یہ نیارویہ درست نہیں، اس میں کہیں نہ کہیں کوئی خرابی ضرور پائی جاتی ہے اور یہ ہماری صدیوں سے چلی آنے والی روایات اور کلچر سے میل نہیں کھاتا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ یہ احساس بھی کمزور پڑتا چلا جاتا ہے اوریوں ایک نئی چیز معاشرے میں اپنے وجود کو مستحکم کرلیتی ہے۔ یہ جدت طرازی اگر تو انفرادی سطح پر ہو تو اس کو پھیلنے میں وقت لگتا ہے لیکن اگر اسے میڈیا کے جدید ترین ذرائع کے ذریعے متعارف کرایا جائے تو پھر برسوں کیا، مہینوں میں یہ نئی چیز اپنی جگہ پیدا کرلیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کے ذمہ دار عناصر اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے معاشرے کی نبض پڑھ کر لوگوں کو درست سمت رہنمائی دیں تاکہ ہمارا معاشرہ ایسی کیفیت کا شکار نہ ہوجائے کہ جس کا جی چاہے، محض اِبلاغ کے بل بوتے پر عوام کو اپنے پیچھے لئے پھرے…!! ان دنوں رمضان المبارک اپنی برکتوں کے ساتھ اُمت ِاسلامیہ پر سایہ فگن ہے۔ چند سالوں سے رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ایک نئے رجحان نے جنم لیا ہے جو جدید شہروں سے دیگر علاقوں کی طرف بڑی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ رمضان المبار ک سے ہفتہ عشرہ پہلے لاہور، کراچی اوراسلام آباد جیسے شہروں کی شاہراہیں زکوٰۃ حاصل کرنے کی مہمات کا مرکز بن جاتی ہیں ۔ اور مختلف خوبصورت نعروں ،دیدہ زیب بینروں اور بورڈوں کے ذریعے کئی ایک گروہ مسلمانوں کی زکوٰۃ سمیٹنے کے لئے میدان میں اُتر آتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد تو ہسپتالوں کی ہے جس کے ساتھ ساتھ اب تعلیم اور رفاہِ عامہ کے دیگر کاموں کے لئے بھی اشتہاری سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ آج سے صرف چند برس پہلے دیکھیں تو زکوٰۃ کے حوالے سے اس رجحان اور سرگرمی کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ ایک طرف اسلام کے ایک اہم ترین فریضے کے حوالے سے قوم میں پروان چڑھایا جانے |