Maktaba Wahhabi

77 - 79
عسکری کارروائی شروع ہوگئی جس کی قوت کے بارے میں موقع پر موجود ایک سرکاری افسر کا بیان تھا۔ لگتا ہے پوری بھارتی فوج نے چھوٹے ملک بھوٹان پر چڑھائی کردی ہے۔ فائرنگ… دھماکے… گولہ باری … شیلنگ … جاسوسی طیارے… گن شپ ہیلی کاپٹرز…خدا جانے کیا کچھ!! اور پھر باقاعدہ آپریشن شروع کردینے کا اعلان۔ اس دوران عبدالرشید غازی سے بھی ایک بار ٹی وی پر گفتگو کا موقع ملا۔ اور پھر پتہ چلا کہ ان کی والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں ۔ اور تبھی صبح صادق فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا۔ ’’پلیز کال!‘‘ یہ اسماء تھی!! میں نے فوراً رابطہ کیا تو دوسری طرف چیخیں … شور شرابہ… لڑکیوں کی آوازیں ’’ہیلو … اسماء بیٹی! ہیلو ’’خدا جانے وہاں کیا ہورہا تھا ’’ہیلو بیٹی آواز سن رہی ہو۔‘‘ میں پوری قوت سے چیخ رہا تھا۔ ’’بات کرو، کیاہوا ہے۔‘‘ وہ جملہ … آخری سانسوں تک میری سماعتوں میں زندہ رہے گا۔ ایک بلک بلک کر روتی ہوئی بچی کی رُک رُک کر آتی آواز ’’باجی مرگئی ہے۔ مرگئی ہے باجی … ’’اور فون منقطع ہوگیا۔ اسٹوڈیوز سے کال آرہی تھی کہ میں صورتِ حال پر تبصرہ کروں لیکن میں بار بار منقطع کال ملانے کی ناکام کوشش کررہاتھا۔ کچھ کہنے یا سننے کی ہمت نہ تھی۔ کسی کمانڈو جیسی طاقت، اعجاز الحق جیسی دیانت اور طارق عظیم جیسی صداقت نہ ہونے کے باعث مجھے ٹی وی پر گونجتے ہر دھماکے میں بہت سی چیخیں … فائرنگ کے پیچھے بہت سی آہیں اور گولہ باری کے شور میں ’’بھائی جان! یہ ہمیں کیوں ماریں گے؟‘‘ کی صدائیں سنائی دے رہی تھیں ۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں دھواں بھر گیا ہوگا اور باہر فائرنگ ہورہی ہوگی۔ بہت سی بچیاں تھیں … فون نہیں مل رہا تھا … پھر عمارت میں آگ لگ گئی اور میں اسماء کو صرف اس کی لا تعداد دعاؤں کے جواب میں صرف ایک الوداعی دعا دیناچاہتا تھا… ناکام رہا۔ فجر کی اذانیں گونجنے لگیں تو وضو کرتے ہوئے میں نے تصور کیا کہ وہ جو سیاہ لباس میں ملبوس مجھ سے خواہ مخواہ بحث کررہی تھیں ، اب سفید کفن میں مزید خوبصورت لگتی ہوں گی! جیسے پریاں ۔ قحبہ خانوں کے سر پرستوں کو نوید ہو کہ اب اسلام آباد پُرسکون تو ہوچکا ہے لیکن شاید اُداس بھی اور یہ سوال بہت سوں کی طرح ساری عمر میرا بھی پیچھا کرے گاکہ وہ کون تھیں ؟کہاں چلی گئیں ؟[دونوں مرحوم بچیوں سے وعدے کے مطابق اُن کے فرضی نام تحریر کررہا ہوں ] (روزنامہ جنگ: ۱۳ جولائی ۲۰۰۷ء) ٭٭ ٭ 3. عرفان صدیقی ’نقشِ خیال‘ تازہ لہو کے تازہ جام تازہ لہو کے تازہ جام پینے کے بعد ’عہد ِ خون رنگ‘ کا چہرہ کچھ اور ہی نکھر آیا ہے۔ جوانانِ قوم کے خونِ گرم کی حدت سے اس کے رخسار تمتمانے لگے ہیں۔ بلا شبہ یہ تاریخ ساز کامیابی ہے، لال قلعہ تو ناآسودہ خواہشوں کی دھند میں کھو گیا لیکن لال مسجد کے میناروں پر کامرانی کے پرچم لہرا دیئے گئے۔ لاریب یہ ایک ’تاریخ ساز فتح‘ ہے، کوئی بھی سپاہ اس پر ناز کرسکتی ہے۔ یہاں ایک سو سال تک سات سمندر پار سے آئے سامراج کی حکمرانی رہی لیکن وہ بھی اپنے غلاموں پر ایسی عظیم فتح نہ پاسکا۔ شاید دنیا کی تاریخ میں ایسی کامرانی کی کوئی نظیرنہ ملے، شاید ہی کسی ریاست نے کسی تعلیمی ادارے کو اس انداز سے فتح کیا ہو۔ شاید ہی کسی حکومت نے کسی درس گاہ پر حملہ کرکے اتنے لوگوں کا خون بہایا ہو۔
Flag Counter