تعلقات کافی متاثر ہیں اور لگاتار چینی ماہرین پر حملوں سے پاک چین تعلقات میں گہری دراڑیں پڑرہی ہیں ۔ اس لحاظ سے پاکستان ان دنوں شدید عوامی، قانونی، نظریاتی، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کا شکار ہے، ملک کے تمام اداروں اور طبقہ ہائے زندگی میں ان پریشان کن حالات کا ذمہ دار فردِ واحد کی حکمرانی کو قراردیا جارہاہے۔ دوسری طرف صدر مشرف بہر صورت اپنے اقتدار کو طول دینے پر مصر ہیں اور الیکشن سے قبل (۱۵ ستمبر تا ۱۶/ اکتوبرکے دوران) اپنے صدارتی انتخاب کو یقینی بناکر اپنے زیر نگرانی الیکشن کروانے کے لئے ہر ممکنہ سیاسی جوڑ توڑ کررہے ہیں ۔ ان مشکل حالات میں امریکہ کا پاکستان کو کھلم کھلا جارحیت کی دھمکی دینا واضح طورپر اس رویہ کا غماز ہے کہ امریکی انتظامیہ ماضی کی طرح اپنے پیشہ وارانہ اہداف کے حصول پر ہی اپنی توجہ مرتکز رکھتی ہے اورہردم زیادہ سے زیادہ مفادات سمیٹنے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ امریکہ کا موجودہ حالات میں پاکستان کی سلامتی اور داخلی خود مختاری کو کھلم کھلا چیلنج کرنا دو دھاری تلوار ہے جس سے بیک وقت کئی مقاصد حاصل کئے جارہے ہیں : 1. صدر مشرف کا دوام اورتسلسل: امریکی مقاصد کی تکمیل کے لئے پاکستان میں صدر مشرف کا برسراقتدار رہنا ضروری ہے،یہ امریکہ کی علاقائی ضرورت بھی ہے کیونکہ امریکہ افغانستان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں اور پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ کے لئے افغانستان میں اپنے ہرلحظہ کمزور پڑتے تسلط کوبرقراررکھنا ممکن نہیں ۔موجودہ حالات میں صدر مشرف کے ماسوا کسی اور حکومت پر امریکی حکومت اپنے مفادات کے سلسلے میں اعتماد نہیں کرسکتی جیسا کہ صدر نے جامعہ حفصہ پر ایک سنگین جارحانہ کاروائی کے احکام دے کر اپنے دوٹوک رجحانات کا تعین کرنے کے علاوہ دنیا کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ مزعومہ مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا ودیگر ممالک نے بڑے واضح الفاظ میں صدر مشرف کے اس اقدام کی تحسین کی ہے۔ چنانچہ امریکی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ صدر مشرف کی حد تک پوری طرح مطمئن ہیں ، البتہ پاکستان کی انتظامیہ اور دیگر حکومتی اداروں کے بارے میں وہ تاحال مخمصے کا شکار ہیں ۔ مئی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے جان ڈی نیگرو پونٹے(امریکی نائب وزیر خارجہ وسابق ڈائریکٹر امریکی انٹیلی جنس) نے دی نیشن کو بتایا کہ ۳ اہم امریکی عہدیداروں کے حالیہ دورے کا |