کے احکامات اور ان کے خلاف حکومتی الزامات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اُنہیں اپنے عہدے پر بحال کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ بحا ل کئے جانے والے چیف جسٹس آف پاکستان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے منصب کو سنبھالنے کے بعد سے مختلف اہم معاملات پر از خود سینکڑوں نوٹس لے چکے تھے۔ اُنہوں نے نہ صرف بلوچستان کے مسئلے پر نوٹس لیا، ملکی خزانے کی خرد برد مثلاً سٹیل مل کے اونے پونے داموں فروخت پر نوٹس لیا بلکہ لاپتہ افراد کی تفصیلات جاری کرنے کے بارے میں بھی سرکار کو احکامات صادر کئے اور حکومت کی ان کے خلاف حقیقی فردِ جرم اور ریفرنس یہی ہے۔ ان کی جبری رخصت کے خلاف وکلا برادری نے جس طرح متحد ہوکر عدل وانصاف کے ایوانوں کا وقار بحال کرنے کی کوشش کی، یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے۔ ان کی جدوجہد فقید المثال اور عدیم النظیررہی جس میں مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکلا نے غیرمعمولی کردار پیش کیا، چنانچہ ان کی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہوئی جس کے اچھے ثمرات مستقبل قریب میں قوم کو ضرور حاصل ہوتے رہیں گے۔ 3. جولائی کا پورا مہینہ وطن عزیز شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ ۱۹ جولائی تک صورتحال یہ تھی کہ ۱۴ روز میں ۱۵ سے زائد بم دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے تھے جن میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد سینکڑوں میں رہی۔ ۱۹ جولائی کا دن دہشت گردی کے حوالے سے بدترین رہا جس روز تین دھماکے: حب، کوہاٹ اور ہنگو میں ہوئے اور ۵۸ سے زائد معصوم لوگ شہید ہوگئے۔ اس سے قبل ۱۵ جولائی کو بھی سوات اور ڈیرہ اسماعیل خاں میں بھی تین حملوں میں ۳۱ اہل کاروں سمیت ۵۲ افراد جاں بحق ہوئے اور ۱۰۰ کے قریب زخمی ہوگئے۔ جولائی کے مہینے میں ہلاکتوں اور تشدد کے واقعات اتنی کثرت سے ہوئے کہ بعض سیاستدانوں نے پاکستان کو عراق جیسے جنگ کے شکار ملک سے تشبیہ دی۔ صدر مشرف نے تو حسب ِمعمول اسے انتہاپسندوں اور اعتدال پسندوں کی جنگ قرار دے کر مزعومہ انتہاپسندی کے خلاف قوم کو کھڑے ہونے اورڈٹ جانے کی تلقین کی، البتہ دیگر قومی رہنماؤں نے اس موقعہ پر غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے اسے بیرونی سازش قرار دیا ۔اس موقع پر حکومت نے ملک کے معتمدعلماے کرام سے ملاقات کرکے ان سے خودکش بم دھماکوں کی حرمت کا فتویٰ بھی حاصل کیا جس سے حکومت کے رجحان کا علم توہوجاتاہے کہ وہ دراصل راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ہی ان دھماکوں کا مجرم باور کراناچاہتی ہے۔ جبکہ اسلام آبادمیں وکلاکے |