Maktaba Wahhabi

58 - 79
تک نہ صرف کئی افراد لاپتہ ہیں اور ان کے والدین ان کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں بلکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود زخمیوں سے بھی ان کے اہل خانہ کو ملنے نہیں دیا جارہا۔ ان والدین کی کیا کیفیت ہوگی جو اپنے جگرگوشوں کی تلاش میں دربدر کی خاک چھان رہے ہیں ، اور ابھی تک اُنہیں اس کا بھی علم نہیں کہ وہکسی ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہے یا گولیوں کا نشانہ بن کر آخرت کو سدھار چکا ہے؟ان زخمیوں تک میڈیا کو آج بھی رسائی کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ معاشرے میں اس واقعے کے حوالے سے شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اورلوگوں کو ایک ہزار سے زائد طلبہ وطالبات کی شہادت کا یقین ہے۔ قاضی حسین احمد نے اس المناک موقع پر قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہوئے تمام گم شدگان کی بازیابی کا ذمہ دار مشرف حکومت کو قرار دیا ہے اور وفاق المدارس نے صدر سمیت اہم حکومتی ذمہ داروں کے خلاف سپریم کورٹ میں قتل عام کی درخواست دائر کر دی ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے ملک میں ہوا جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا، اسلام کے نام سے قائم شہر ’اسلام آباد‘ کی قدیم مرکزی مسجد میں ہوا، اس فوج کے ہاتھوں ہوا جس کا ماٹو ایمان، تقویٰ اورجہادفی سبیل اللہ ہے اور اس حکومت کے آرڈر پر ہوا جس کا سب سے عالی منصب اس شخص کو حاصل ہے جو اپنے آپ کو ’سید زادہ‘ قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ تما م مناسبتیں ان لوگوں کے کوئی کام نہ آسکیں جن کا نعرہ ’ملک میں اسلامی نظام کا قیام‘ اور ’معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ‘ اور ’فحاشی کا قلع قمع‘ کرنا تھا۔ اس المناک سانحے کا ردّ عمل ہے کہ آج پوری پاکستانی قوم بدترین ہلاکت ودہشت گردی کی آگ میں سلگ رہی ہے۔ جمعہ ۲۷ جولائی کو لال مسجد میں پہلی بار نمازِ جمعہ کے موقع پر اسلام آباد میں جس طرح ایک بار پھر خانہ جنگی اور ہلاکت وبربادی کی کیفیت دیکھنے میں آئی اور قوم کے نگہبان اور قانون کے محافظ جس طرح بربریت کا نشانہ بنے، اس پر ہر پاکستانی کا دل شدید رنج واَلم سے دوچار ہے۔ معاشرے سے امن وامان کا بھرم اُٹھ چکا ہے اور کوئی بھی شہری اگرکسی دہشت گردی کا شکار ہو تو معلوم نہیں کہ اس شہری کو ہی خود کش حملہ آور قرار دے کر اس کے پس ماندگان کو ہمدردی کے بجائے مزید ظلم واذیت کا نشانہ بنا دیا جائے۔ 2. ۲۰/ جولائی کو ۱۳ ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے فل بنچ نے چیف جسٹس کی غیرفعالیت
Flag Counter