بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر مسجد ِاقصیٰ؛ صہیونیوں کے نرغے میں ! اسرائیل کو تسلیم کرنے پرپاکستان میں صدر مشرف نے اگست2003ء میں بحث مباحثہ کا آغاز کیا جو تاحال مختلف پہلوؤں سے جاری ہے۔ابھی حال ہی (جنوری 2007ء) میں جنرل پرویز مشرف ’ہم خیال ممالک کا گروپ‘ تشکیل دینے کے لئے مشرقِ وسطیٰ کے 5 ممالک کا دورہ بھی کر آئے ہیں جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں ایران اور شام کو نظرانداز کرکے باقی مسلم ممالک کے وزرا خارجہ کا اجلاس بھی منعقد ہوچکا ہے ۔ صدر کے دورے کے فوراً بعد فروری 2007ء میں ایک بار پھر مسجد ِاقصیٰ کو صہیونی جارحیت کا نشانہ بننا پڑاہے۔ ان حالات میں مناسب سمجھا گیا کہ مسلمانانِ پاکستان کے سامنے مسجد ِاقصیٰ کے بارے میں یہودیوں کے موقف اور صہیونیوں کے اس کردار کو پیش کیا جائے جو بوجوہ نظروں سے اوجہل ہوچکا ہے۔ زیر نظر مضمون سے مسجد ِاقصیٰ کے بارے میں بعض ضروری حقائق سے مطلع کرنا ہی مقصود ہے۔جہاں تک اس موضوع کے دیگر پہلو اور بعض دینی رسائل میں مسجد ِاقصیٰ کی تولیت پرایک شرعی بحث کا تعلق ہے تو اس کے لئے مستقل مضمون درکار ہے۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے اوائل دورِ خلافت (14ھ/ 636ء) میں حضرت ابو عبید ہ رضی اللہ عنہ بن جراح کی زیر قیادت مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا۔ اس کے بعد لگاتار 14 صدیوں (1967ء) تک بیت المقدس کا شہر اور مسجد ِاقصیٰ مسلمانوں کی نگرانی میں ہی رہے۔ درمیان میں 1099ء سے 1187ء(15/رجب583ھ) تک کے 88 برس ایسے گزرے جب بیت المقدس پر عیسائیوں نے قبضہ کرلیا اورسلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے ان کے قبضہ سے واگزار کرایا۔ 7 جون 1967ء کو یہودیوں نے پورے بیت المقدس پر اپنے قبضہ کو توسیع دے لی جبکہ اس سے قبل 1948ء میں برطانیہ کے تعاون سے وہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست بھی قائم کرچکے تھے۔ 1897ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر بال میں منعقد ہ عالمی کانفرنس کے نتیجے میں بپا ہونے والی صہیونی تحریک کے دو بنیادی اہداف تھے: ایک تو ارضِ مقدس میں یہودیوں کے لئے مستقل وطن کا قیام اور دوسرا مسجد ِاقصیٰ کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر۔[1] صہيون کا لفظ دراصل |