Maktaba Wahhabi

31 - 79
2. اسلام کی رو سے ان دو جرائم کا اشتراک ہر زنا بالجبر میں نہیں بلکہ جہاں صورتحال میں شدت آجائے او ر خوف وہراس (فساد فی الارض) پیدا ہو، صرف وہیں ہوتا ہے۔ چونکہ مغرب میں زنا کا فلسفہ دراصل جبر کی بجائے محض عدم رضامندی کا ہے، اس لئے وہاں ہر صورتحال کی ایک ہی سزا ہے، جبکہ اسلام میں محض سنگین صورتحال میں دو جرائم لاگو ہوسکتے ہیں یا محض اکیلا جرم فساد فی الارض لاگو ہوسکتا ہے، جب چار گواہ موجود نہ ہوں ۔ مثال: اوپر جو واقعہ گزرا ہے ، اس میں گواہیاں پوری نہ ہونے کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرابہ کا جرم قرار دیا اور اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے شخص کے اعتراف کو گرفتاری سے قبل توبہ پر محمول کیا اور اس کو معاف کرکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے اس کی توبہ کی تعریف کی: ’’فقام رجل من الناس فقال: لا ترجموہ وارجموني۔أنا الذي فعلتُ بہا الفعل فاعْتَرَفَ فاجتمع ثلاثۃ عند رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم : الذي وقع علیہا والذي أجابہا والمرأۃ۔ فقال: أما أنتِ فقد غفر ﷲ لکِ وقال للذي أجابہا قولا حسنًا فقال عمر: ارجم الذي اعترف بالزنا۔قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم : لا،لأنہ قد تاب إلی ﷲ توبۃ لو تابہا أہل المدینۃ لقُبل منہم فأرسلہم۔(سنن بیہقی:۸/۲۸۵) ’’لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ اس کی بجائے مجھے رجم کرو۔ میں نے یہ بد کاری کی ہے، سو اس نے اعترافِ (جرم )کرلیا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ۳ لوگ موجود تھے، ایک تو (بظاہر) زانی، دوسرا جس نے اعتراف کیا اور تیسری (مظلوم) عورت۔ آپ نے فرمایا : اے عورت تو چلی جا، تجھے اللہ نے معاف کردیا۔ جس شخص نے اعترا ف کیا ، آپ نے اس کے لئے بھی اچھے کلمات کہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس کو تو رجم کریں جس نے زنا کا اعتراف کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: نہیں بلکہ اس نے اللہ کے ہاں توبہ کی ہے، سو آپ نے سب کو چھوڑ دیا۔‘‘ او رمسند احمد میں اس حدیث کے راوی محمد بن عبد اللہ بن زبیر بھی کہتے ہیں : فقد صرح ابن الزبیر بأن الحد لم یقم علی المعترف وہو الصواب ’’ابن زبیر نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اعتراف کرنے والے پر حد قائم نہیں کی گئی اور
Flag Counter