Maktaba Wahhabi

67 - 79
ایک سے زیادہ ترجمے یا تفسیریں نہیں ہو سکتیں۔ 3. قرآن کے معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں ، لہٰذا فہم قرآن کے لیے حدیث وسنت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارے نزدیک غامدی کے یہ تینوں اُصول ہی غلط ہیں اور قرآن مجید کی ایک مثال کے ذریعے ہم ان کے اُصولوں کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أیْدِیَھُمَا…﴾ ( المائدۃ:۳۸) اگر غامدی صاحب کے اصولوں کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ’’تم ان دونوں (چوری کرنے والے مرد اور عورت) کے سارے بازو کاٹ دو۔‘‘ کیونکہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں (جمع ) مطلق آیا ہے اور قاعدہ ہے:’’اذا اطلق المطلق یراد بہ الفرد الکامل ‘‘ ’’جب لفظ مطلق استعمال ہو تو اس سے فرد کامل مراد ہوتا ہے۔‘‘ چونکہ کی کامل حد کندھوں یا بغل تک ہے، اسی لیے وضو کی آیت میں ’کامل ید‘ میں سے کہنی تک (الی المرافق ) کی حد بندی کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن کے الفاظ کو دیکھا جائے تو بظاہر مفہوم یہی بنتا ہے کہ چور کا سارا ہاتھ (بازو تک) کاٹ دیا جائے،لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اِجمال کی تفصیل پیش کر دی ہے کہ چوری کی حد اور سزا کی صورت ہاتھ کے جوڑ ( پہنچہ) سے کاٹا جائے گا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :نزل القرآن جملۃ بینہا الرسول قرآن مجمل اُترا ہے یہاں تک کہ اس اجمال کی وضاحت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں۔ شریعت کی رو سے قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لہٰذا ’’قرآن کے الفاظ قطعی الدلالہ ہیں۔‘‘ کا اُصول اس مفہوم میں غلط ہے کہ اس کی تشریح میں سنت وحدیث کی ضرورت نہیں کیونکہ قرآن فی ذاتہ کتنا بھی محکم اور قطعی ہو، اللہ تعالیٰ نے اسے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۳/سالہ زندگی میں پرو کر اسی لیے اُتارا ہے کہ سنت وحدیث سے اس کی تشریح وتفسیر ہوتی چلی جائے۔ گویا قرآن کی دلالت مخاطب کے لحاظ سے اسی وقت قطعی ہوتی ہے جب مخاطب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (اُسوۂ حسنہ) کی روشنی میں سمجھتاہے ورنہ مختلف مغالَطوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
Flag Counter