Maktaba Wahhabi

66 - 79
’’اس (قرآن) کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے۔ یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے ہرگز قاصر نہیں رہتا۔ اس کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ قبول کرلیتے ہیں ، وہ نہ اس سے مختلف ہے نہ متبائن۔ اس کے شہر ستانِ معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں۔ وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں۔‘‘ (میزان:صفحہ ۲۴ ، طبع دوم ) پھر اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کا کوئی لفظ اور کوئی اُسلوب بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے شاذ نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنے مخاطبین کے لئے بالکل معروف اور جانے پہچانے الفاظ اور اسالیب پر نازل ہواہے۔ زبان کے لحاظ سے اس کی کوئی چیز اپنے اندر کسی نوعیت کی غرابت نہیں رکھتی، بلکہ ہر پہلو سے صاف اور واضح ہے۔ چنانچہ اس کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اس کے الفاظ کے معروف معنی ہی پیش نظر رہنے چاہئیں ، ان سے ہٹ کر ان کی کوئی تاویل کسی حال میں قبول نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (میزان:صفحہ ۱۸ ، طبع دوم، اپریل ۲۰۰۲ء ) اس کے بعد اپنے موقف کودرج ذیل مثالوں سے واضح کرتے ہیں : ’’وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ میں النَّجْمُ کے معنی ’تاروں ‘ ہی کے ہوسکتے ہیں۔ إِلا إِذَا تَمَنّٰی میں لفظ تَمَنّٰی کا مفہوم خواہش اور ارمان ہی ہے۔ أفَلاَ یَنْظُرُوْنَ إلَی الإِبِلِ میں الإبل کا لفظ اونٹ ہی کے لئے آیا ہے۔ کَأَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ میں بَیْض انڈوں ہی کے معنی میں ہے۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ میں نحر کا لفظ قربانی ہی کے لئے ہے۔ اور اُسے ’بوٹیوں ‘ اور ’تلاوت‘ اور ’بادل‘ اور انڈوں کی چھپی ہوئی جھلی اور سینہ پر ہاتھ باندھنے کے معنی میں نہیں لیا جاسکتا۔‘‘ (حوالہ مذکور: ص۱۸،۱۹) اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک: 1. قرآن کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پربالکل قطعی ہوتی ہے اور قرآن کا ہر طالب علم اپنے طور پر اس کے الفاظ کا ایک قطعی مفہوم آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ 2. قرآن کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اس کے الفاظ کے صرف معروف معنی ہی لئے جاسکتے ہیں اور ان سے ہٹ کر ان کی کوئی تاویل قابل قبول نہیں ہوسکتی۔گویا قرآن کے الفاظ کے
Flag Counter