لیا۔ بعد ازاں آپ ’ثقافت اسلامیہ‘ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور وہاں اس وقت تک دعوت و تربیت میں مشغول رہے تا آنکہ آپ کی نظر بندی کے احکام جاری ہو گئے۔ ایسی صورتحال میں آپ وہاں سے مکہ مکرمہ منتقل ہوئے اور کنگ عبد العزیز یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ بعد ازاں آپ کو اُمّ القریٰ یونیورسٹی میں شریعت کالج کے ’شعبہ عدل و قضا‘ کی سربراہی سونپ دی گئی اور اس کے بعد آپ کو ریسرچ کے اعلیٰ شعبے کی مسند تفویض کر دی گئی اور آپ تاحیات پروفیسر مقرر ہو گئے۔ اس عرصے میں آپ نے بہت سے لیکچرز دیئے اور فقہ و اُصولِ فقہ کی تعلیم دی اور یک صد سے زیادہ مقالات پر نظر ثانی کی اور علما و اساتذہ کے جم غفیر کو سند فضیلت عطا کی۔ اس کے بعد آپ نے اپنی زندگی کے آخری تین سال وطن واپس آکر قاہرہ میں بسر کئے اور اپنی وفات تک وہاں سے پھر کسی جگہ نہ گئے۔ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ اپنی جوانی کے آغاز میں ہی الجمعية الشرعية کے بانی شیخ سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے منسلک ہو گئے اور ان کے خلف الرشید شیخ عبد اللطیف مشتہری رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں ان سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے اور ان کی صحبت کی برکت سے آپ کے دل میں سنت کی محبت گھر کر گئی۔ یہاں آپ کی بلند ہمتی اور ذہانت و فطانت اور دلی طہارت نے آپ کو اپنے ساتھیوں میں ممتاز مقام پر فائز کر دیا اور آپ فقہ کے بالاستیعاب مطالعہ و تحقیق میں کمال حاصل کر گئے۔ جب آپ کے شیخ نے فقہی مسائل میں آپ کی فہم و فراست کا مشاہدہ کیا تو اُنہوں نے آپ کو شرح وبسط کے ساتھ فقہی دروس تیار کرنے اور اپنے ہم سبق ساتھیوں کو پڑھانے کا حکم دے دیا حالانکہ اس وقت آپ اُنیس سال کی عمر کو بھی نہ پہنچے تھے۔ شیخ سبکی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کی طرزِ فکر کا آپ کی شخصیت پر بڑا اثر تھا۔ چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے عنفوانِ شباب میں جہادِ فلسطین شروع ہو گیا اور میں نے ایک دن جوش میں آکر اپنے شیخ سے دورانِ سبق ہی کہہ دیا کہ آپ کب تک ہمیں اخلاق و آداب کے درس دیتے رہیں گے؟ ہمیں جہاد کی ترغیب کس نے دینی ہے اور اس کی اہمیت کس نے بتانی ہے؟ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ نے مجھے بیٹھ جانے کا حکم دیا تو میں نے جواب دیا کہ ہم کب تک بیٹھے رہیں گے؟ اُنہوں نے کہا: میرے بیٹے! اگر تو عالم کے سامنے اَدب کا مظاہرہ کرنے پر صبر نہیں کر سکتا تو جہاد فی سبیل اللہ میں کیسے صبر کرے گا؟ فرماتے ہیں کہ ان کے اس فرمان نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میں اب تک اس کا اثر اپنی |