Maktaba Wahhabi

64 - 79
ہونیوالے خدا کو مانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ جب اسکے قائل ہی نہیں تھے کہ خدا کو متصور کرنا ممکن بھی ہے اور اسے حواس کی گرفت میں لایا بھی جاسکتا ہے تو پھر وہ اسکی شبیہ کیسے بنا سکتے تھے؟“ مذکورہ بالا عبارت میں وہ اعتزالی عقائد کے زیر اثر دنیا وآخرت میں مطلقاً دیدارِ الٰہی کا انکار کر کے اپنے طور پر مشبہہ کا رد کررہے ہیں حالانکہ یہ عقیدہ جہمیہ معطلہ کا ہے۔ جبکہ حق مشبہ اور معطلہ کے درمیان ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ ٭ اسی طرح وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارہ میں سورۂ سبا کی آیت نمبر ۱۳ میں ’تماثیل‘ کے ذکر سے اپنے استدلال کو مضبوط بنانے کیلئے شرائع ِاسلامیہ کا تصور ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں : ”تماثیل اگر شر ہیں تو ہمیشہ کے لئے ہیں اور اگر خیر ہیں تو ہمیشہ کے لئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ ایک شریعت میں جائز ہوں اور ایک میں ناجائز … الخ“ (ص:۲۳) غامدی فکر کی بڑی اساس اسرائیلیات (بائبل وغیرہ) ہیں جسے وہ ’حدیث ِرسول ‘پر مقدم رکھتے ہیں ۔ اسی بنا پر وہ بہت سے مسائل میں سابقہ شرائع کے تنوع کے قائل نہیں ۔ جبکہ محمدی شریعت میں ایسے کئی مسائل موجود ہیں جو کسی سابقہ شریعت میں جائز ہونے کے باوجود آخری اور اکمل حکم کے طور پر ناجائز قرار پائے۔ مثلاً سجدۂ تعظیمی جو فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو کروایا گیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے ماں باپ سمیت تمام بھائیوں نے کیا لیکن شریعت ِمحمدیہ میں یہ سجدۂ تعظیمی ہمیشہ کے لئے حرام قرار دے دیا گیا۔ ان تحفظات کے باوجود محمد رفیع مفتی صاحب کی تصویر کے مسئلہ پر یہ تحریر اس اعتبار سے اچھی نظر آئی کہ انہوں نے قرآن و حدیث کے درمیان تضاد پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کے علاوہ فقہاے سلف کوبھی ایک موقف (خواہ اُدھورا ہی ہو)پر متفق بنانے کی کوشش کی ہے جو ان کی نظر میں کتاب و سنت ہی کا کامل مفہوم ہے۔ اس تاثر کو قائم رکھنے کی حد تک تو ان کی کاوش اچھی لگی لیکن اس کے لئے اُنہوں نے احادیث کا جابجا ذکر کرکے تصویر کی شرعی حیثیت اور سلف کایک رخا موقف واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہمیں محمد رفیع مفتی صاحب کے شرعی فتویٰ سے تو اختلاف ہے، لیکن ان کا اندازِ استدلال کم از کم اشراق کے حلقے سے متاثر ہونے والے ایک شخص کے لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ کاش کہ وہ ان خطرات کو بھی ملحوظِ نظر رکھ سکتے جو ان کی اس موضوع پر ’ناقص بحث‘ سے تصویر کی کھلے عام اباحت پر منتج ہوسکتے ہیں ۔کل کلاں کوئی من چلا یہ بھی آواز لگا سکتا ہے کہ ”شبیہ ِ رسول یا تصاویر ِا نبیا کی اشاعت بھی صرف کراہت کے درجہ میں ہے، اس پر
Flag Counter