اس سلسلہ میں ان میں فکرونظر کی جو کجی پائی جاتی ہے اوردین وشریعت کی پابندی کے بجائے عقل وفطرت کے دعووں سے افراط و تفریط کا جودور دورہ ہے، اس سے اہل علم بھی پریشان ہیں ۔ کیونکہ مسٹر جاوید احمد غامدی عموماً اُمت ِمسلمہ کے ماضی، ائمہ اسلاف اور فقہاے کرام کا ذکریوں توہین آمیز انداز میں کرتے ہیں کہ یہ الہامی انکشاف اُنہیں پہلی دفعہ ہوا ہے جب کہ علماے اُمت فہم شریعت اور عقل وبصیرت سے محروم تھے۔ چنانچہ اسی تجدد کے شوق میں وہ حدیث ِرسول کو وحی تسلیم کرنے سے بہانہ بہانہ سے گریزاں ہیں تا کہ اہل سنت کے علیٰ الرغم اعتزال ونیچریت کے لیے راہیں ہموار کریں ۔ ’حلقہ غامدی‘ کے قلمکار جاوید احمد غامدی کی تعلّی کے زعم میں علماءِ امت کے عمومی رجحانات کے حوالہ سے مشرقی ثقافت پر تنقید کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے واضح ہے کہ وہ غلام احمد پرویز کی طرح علماء و فقہا سے لوگوں کو بدظن کرکے مسٹر غامدی کی امامت منوانا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ ماضی میں بھی قرآن و حدیث (وحی) کی حکمتیں اور معرفتیں معلوم کرنے یا بیان کرنے کا کام اُمت میں بہت سے جلیل القدر اہل علم نے کیا ہے جن میں حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر میں نمایاں ہیں ۔ لیکن حکیم الامت کے برعکس مسٹر جاوید احمد غامدی کا حلقہ اپنی مزعومہ حکمتوں اور علتوں کو ہی اصل قرار دے کر اپنے نام نہاد مفروضوں کو شریعت باور کرانے پر تلا ہوا ہے جس کے لئے وہ نہ تو ائمہ محدثین کے فن ِثبوت کو معیار مانتے ہیں اور نہ ہی استدلال میں فقہاے سلف کے اُصولوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ جیسے مطلب برآری ہوتی ہو، مروّ جہ اصطلاحات کو استعمال تو کیاجاتاہے لیکن ان کو من گھڑت معانی پہنا کر ہواے نفس پوری کی جاتی ہے ۔ اسی بنا پر ان کے حلقہ سے جو چیز آئے، اسے کتاب و سنت کی کسوٹی پر حزم و احتیاط سے پرکھ کر ہی لینا چاہئے!! ٭ تصویر کے مسئلہ پر آپ نے محمد رفیع مفتی کے جس مقالے کا ذکر کیا ہے اس میں مفتی صاحب[1] نے غامدی صاحب کے زیر اثر کئی جگہ اُصولی غلطیاں کی ہیں ، کیونکہ استدلالی علوم کے علاوہ انہیں عقائد ِاسلامی سے بھی زیادہ آشنائی نہیں ہے مثلاً اپنی کتاب ’تصویر کا مسئلہ‘ ص۸۶ میں لکھتے ہیں : ”یہ موحدین حواس کی گرفت میں نہ آنے والے یعنی نہ دکھائی دینے والے اور نہ محسوس |