(ساہیوال) 3. مولانا عبدالستار حماد ،شیخ الحدیث جامعہ اشاعۃ العلوم (چیچہ وطنی) 4. حکیم حافظ عبدالرحیم زاہد 5. مولانا عبدالرحمن چیمہ 6. مولانا محمد علی کوٹ کبیری 7. مولانا محمد حنیف مکی 8. مولانا محمد احمد (قوم اوڈ) 9.مولانا احمدحسن 10.مولانا عبدالغفار 11.مولانا محمدعبداللہ12.مولانا عبدالستار13.مولانا عبدالقادر14.مولانا عبدالجلیل15.قاری اللہ بخش16.راقم الحروف آپ نے ’ترکیب القرآن‘ کے نام سے سات اجزا پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا صرف ایک ’جزء لن تنالوا‘ شائع ہوسکا جسے مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور نے شائع کیا۔ مولانا موصوف قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے بمع اہل و عیال پاکستان منتقل ہوگئے، اور میاں چنوں شہر کے قریب چک ۱۲۶/۱۵۔ایل میں ڈیرے ڈال دیے، یہیں آپ نے ایک دینی ’مدرسہ دارالہدیٰ‘ کی بنیاد رکھی، جو صرف دو کچے کمروں پر مشتمل تھا۔ اس میں تدریس کے فرائض آپ خود ہی سرانجام دیا کرتے تھے۔ اپنے ساتھ پڑھانے کے لئے دو معاون اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کرتے، لیکن لوگوں سے چندہ کی اپیل کبھی نہیں کرتے تھے۔ جامع مسجد (جو اس وقت کچی اینٹوں سے ہی بنی ہوئی تھی) میں امامت اور خطابت کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے۔ موصوف صرف و نحو (عربی گرامر) میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے، دینی طلبہ میں قواعد صرف و نحو کو راسخ اور پختہ کرنے کے لئے مدارسِ دینیہ میں سالانہ چھٹیوں کے موقع پر ماہِ رمضان میں وہ ’دورۂ صرف و نحو‘ رکھ لیتے، جس میں دیگر مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ بڑے شوق و ذوق سے شمولیت اختیار کرتے تھے۔ دورہ کی اس کلاس میں قواعد ِصرف و نحو کو بہت اہمت دی جاتی تھی۔ مولانا مرحوم نمازِ فجر سے فارغ ہوکر درسِ قرآن دیتے، اس کے فوراً بعد یہ کلاس جاری ہوجاتی۔ آپ خود پڑھاتے، اور قواعد ِصرف و نحو کا اِجرا کرواتے اور عربی گرامر سے متعلق نادر مسائل زیر بحث آتے۔ آپ کے ہاں طالب علم کی علمی بنیاد مضبوط بنانے کے لئے صرف و نحو کے قواعد کا اِجرا اور ان کی مشق بہت ضروری سمجھی جاتی تھی، فارغ اوقات میں اگرچہ وہ ضروری گفتگو بھی کرتے تھے لیکن عام طور پر ان کی زبان ذکر اللہ سے متحرک رہتی تھی اور اسی میں وہ سکون و اطمینان محسوس کرتے تھے۔ |