Maktaba Wahhabi

64 - 79
کتنے عرصہ بعد طلاق کا مطالبہ کرنے کی اجازت ہے؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی رائے میں ایک سال کی مدت میں حصولِ ضرر اورعورت کو تنہائی کا شدید احساس ہوجاتاہے، جس کی بنا پر وہ فسخ نکاح کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ بعض دوسرے علما نے تین سال کی مدت بیان کی ہے۔[1] امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ عورت کو چھ ماہ بعد تفریق کامطالبہ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ قول زیادہ ٹھیک ہے کیونکہ عورت اپنے خاوند کی غیر موجودگی پر زیادہ سے زیادہ اتنی مدت ہی صبر کرسکتی ہے۔ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہے جو انہوں نے نافذ فرمایا تھا۔ چنانچہ (اس مدت کے بعد) پہلے تو خاوند سے مطالبہ کرنا چاہئے ، کیونکہ نکاح کاباقی رکھنا یاطلاق دینا اس کا اختیار ہے۔اگر وہ اس مطالبے کو تسلیم کرلے تو مسئلہ حل ہوگیا۔اگر وہ اسے نکاح میں رکھنے پر مصر ہوتو عورت اگر مسلمانوں کے ملک میں ہو تو عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اگر غیر مسلم علاقے میں ہے تو اسلامی مرکز سے رجوع کرے۔ مسلمان کمیونٹی جس شخص کو ان معاملات کے فیصلے کرنے کے لئے مقرر کرتی ہے، وہ اس عورت کو طلاق یافتہ قرار دے سکتی ہے جسے اس کا خاوند محض تنگ کرنے کے لئے نکاح میں رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس سے پہلے حالات و واقعات کی مکمل تحقیق کی جانی ضروری ہے اور ضرورت پڑے تو مناسب مدت مقرر کی جاسکتی ہے۔ ٭ اگر خاوند گم ہوجائے اور معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے تو اس صو رت میں عورت کو طلاق طلب کرنے کا حق ہے۔ قاضی کو، یا جسے کمیونٹی ان معاملات کے فیصلے کرنے کے لئے مقرر کرتی ہے۔ اسے چاہئے کہ صورتِ حال کی اچھی طرح تحقیق اور چھان پھٹک کرے، اور گواہی وغیرہ طلب کرے۔ اگر دعویٰ ثابت ہوجائے تو ان کے درمیان تفریق کا فیصلہ دے دے۔ اس صورت میں بھی مدت کے بارے میں وہی تفصیل ہے جو قیدی کے بارے میں بیان ہوچکی ہے۔ پہلی بیوی سے خاوند کی بے رُخی؟ ٭ سوال ۱۲: تین سال پہلے میں نے شمالی افریقہ کے ایک آدمی سے شادی کی تھی۔
Flag Counter