Maktaba Wahhabi

79 - 79
يسّروا ولاتعسّروا کے نبوی اُصول کو سامنے رکھنا چاہئے۔ ’تحریک ِاسلامی، پاکستان‘ کے امیر حکیم محمود سہارنپوری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے اخلاص میں کوئی شک نہیں ،لیکن یہ ضروری ہے کہ افراط و تفریط کے درمیان راہِ ِاعتدال اختیار کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس عمل کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے عمل وکردار سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے دعوت کے ساتھ ساتھ عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ صوبہ سرحد میں مجلس عمل کو اپنی اصلاحات ممکن حد تک نافذ کرنی چاہیں ۔اس ضمن میں اہم توجہ طلب پہلو تعلیمی نظام کی اصلاح ہے ،جس پر وفاق کی مداخلت کے بغیر صوبائی حکومت ، عمل درآمد کرسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام لوگوں کی فلاح کے لئے بھی کوششیں تیز کرناچاہیے ۔یہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مختلف تحریکوں میں اصل کردار عام اور بظاہر بے عمل لوگوں نے ہی ادا کیا ہے۔ عوام نے دینی جماعتوں کو اپنے اعتماد سے نوازا ہے ۔اب دینی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس امانت کا پاس کریں ۔نیز حکومت میں رہتے ہوئے سادگی کو اپنا شعار بنائیں ۔ اس کے بعد شعبہ ابلاغیات،جامعہ پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ دور سٹیلائٹ کا دور کہلاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کس طرح سے اس جدید عہد کے انسان کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں ۔ کس طرح سے انسانی زندگی پر مثبت و منفی پہلوؤں سے اِحاطہ کئے ہوئے اور موجودہ اسلام اور مغرب کی کشمکش میں اس کا کیا کردار ہے اور ہونا چاہئے، اس سے ہر ذی شعور انسان بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بڑے افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ دینی جماعتوں کے پروگرام میں اس کو وہ اہمیت حاصل نہیں جس کا یہ شعبہ متقاضی ہے اور حد تو یہ ہے کہ انگریزی جرنلزم میں دس افراد بھی شاید دینی جماعتوں کے پاس نہ ہوں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اس شعبے کو کتنی اہمیت دی ہے؟ اس کے برعکس سیاسی جماعتیں نسبتاً زیادہ متحرک ہیں ۔ آپ دیکھیں جیسے ہی پیپلزپارٹی کی حکومت آتی ہے تو ان کا کلچرل وِنگ فوراً فعال ہوجاتا ہے۔ ان کے پاس اس شعبے کے تربیت یافتہ افراد ہیں ۔ان کی باقاعدہ ایک کمیونی کیشن پالیسی ہے،جبکہ ہماری نہ تو باقاعدہ ہ کمیونی کیشن پالیسی ہے اور نہ ہی
Flag Counter