دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) عمرہ کا وجوب،اسقاط حمل،لڈوتاش کھیلنا؟ ٭ قربانی کی کھال اور سرفروخت کرنے کا حکم ٭کیا عمرہ واجب ہے ؟حج کے ساتھ ہی عمرہ کرنے کا حکم ٭ جنین میں روح پڑنے سے قبل اسقاطِ حمل کا حکم ٭ ازراہِ تفریح لڈو، تاش اور شطرنج کھیلنے کا حکم اور ٭ ’عشر‘ کے مسائل سوال: ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ جو حصہ دار قربانی کے جانور کو پالتا ہے، وہ دوسرے حصہ داروں کے اتفاق سے جانور کا سر او رچمڑہ اپنے پاس رکھتا ہے، جس کی قیمت اس کے حصہ میں شامل کردی جاتی ہے۔او رباقی حصہ داروں کے حصص میں کمی کردی جاتی ہے۔ یا پھر کھال کسی کے ہاتھ فروخت کر دی جاتی ہے تو کیا یہ صورتیں جائز ہیں ؟ ( عبدالرحیم روزی، غواڑی) جواب:قربانی سے مراد وہ جانور ہے جو عید کے دن اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جاتاہے اور وہ شئ ایک ہے، اس میں شراکت نہیں ہونی چاہئے۔ اس لئے اہل علم کہتے ہیں کہ مختلف نیتوں کے حامل افراد اس میں شریک نہیں ہوسکتے۔ مثلاً بعض کی نیت محض حصول گوشت کی ہو اور دیگر کی نیت کچھ اور ہو تو اس طرح کی قربانی نہیں ہوگی۔ شریعت نے سات کی شراکت کی جو سہولت دی ہے، یہ صرف ربّ العزت کا احسان ہے یہ حکم اپنے محل کے ساتھ خاص ہے۔اس میں محض اپنی طرف سے استثنائی صورت پیدا کرنا غیر درست عمل ہے۔ دوسری طرف اس شخص کی نیت کے خلوص میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے جس سے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ پیداہوجاتا ہے۔ بنابریں پھر سر اور کھال کی تخصیص نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس میں سب حصہ دار برابر ہیں ۔ اور پھر کھال تو ویسے بھی فقراء و مساکین کا حق ہے جس کا لحاظ رکھنا از بس ضروری ہے۔ اور اسے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ ترغیب وترہیب میں حدیث ہے: من باع جلد أضحيته فلا أضحية له (رواہ الحاکم وقال: صحیح الاسناد۲/۱۵۵،۱۵۶) ’’جس نے قربانی کا چمڑا فروخت کیا، اس کی قربانی نہیں ۔‘‘ اسی طرح قربانی کا گوشت فروخت کرنا بھی بالاتفاق ممنوع ہے۔ مذکورہ مسئلہ بھی اسی سے ہے۔ |