قابل ذکر ہیں ۔ 5. دارِ ارقم مسلمانوں کے لئے دارالاسلام ہونے کے ساتھ ساتھ’دارالشوریٰ‘بھی تھاجس میں باہمی مشاورت سے آئندہ تبلیغ کے منصوبے بنتے تھے۔ ہجرتِ حبشہ کا فیصلہ بھی باہمی مشورہ سے یہیں پر طے ہوا اور اس جگہ کو تاریخ اسلام میں وہی مقام حاصل تھا جو قریش کے ہاں دارالندوۃ کو حاصل تھا۔ 6. دارِ ارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پناہ گزین ہونا ایک تاریخ ساز مرحلہ تھا اور یہ بھی حلف الفضول،حرب الفجار اور عام الفیل جیسا مہتم با لشان واقعہ تھاجس طرح کفارِ مکہ اپنی معاصر تاریخ کا تعین ان واقعات سے کرتے تھے، اسی طرح مسلمان مؤرخین بھی مکی عہد ِنبوت میں پیش آنے والے واقعات کا تعین دارِ ارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داخل ہونے سے قبل اور بعد کے حوالے سے کرتے ہیں ۔ 7. حضرت ارقم رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بہت ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ انہوں نے بہت ابتدا ہی میں اپنے مکان کو تبلیغی سرگرمیوں کے لئے وقف کردیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائی سالوں میں ہی دارِارقم کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کامرکز بناچکے ہوں ۔ 8. مؤرخین کے مختلف بیانات کی روشنی میں کہاجاسکتا ہے کہ دارِارقم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی مدت ایک سال سے بہرحال زائد تھی۔ 9. کفارِ مکہ مسلمانوں کے دارِ ارقم میں پناہ گزین ہونے سے پوری طرح واقف تھے،تاہم دارارقم کی اندرونی سرگرمیوں اور منصوبہ بندیوں سے وہ قطعاًناواقف تھے۔ 4 شعب ِ ابی طالب کفارِمکہ کویہ خوش فہمی تھی کہ وہ اپنے وحشیانہ جبر وتشدد سے اسلام کی اس تحریک کوموت کی نیند سلادیں گے، لیکن جب ان کی تمام مساعی اور تدبیروں کے باوجود اسلام کا دائرہ پھیلتا ہی چلا گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اورعمر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا اور نجاشی کے دربار میں بھی ان کے سفیروں کو ذلت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس چوٹ نے کفارِ مکہ کو |