بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر دورِ حاضر میں نفاذِ اسلام ؛ ایک آدرش، ایک چیلنج ! خالق کائنات نے انسانوں کی راہنمائی اور اپنی کمال رحمت ورافت کے اظہار کے لئے جو نظام تجویز فرمایا، اس جادۂ حق کو’اسلام‘ کا عنوان عطا فرمایا۔ یہی وہ ’صراطِ مستقیم‘ ہے جو درحقیقت حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سرورِ انبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کے سلسلۂ ہادیانِ برحق کی بعثت کا باعث و حقیقی سبب ہے۔ یہی وہ دین حق ہے جو ﴿ لِيُظْهِرَه علي الدِينِ كلِّه﴾ کا مصداق اصلی ہے۔ یہی وہ فیضانِ حق تھا جو صحراے عرب میں بادو باراں بن کر برسا تو دلوں کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں لہلہانے لگیں ؛ دم توڑتی انسانیت کو آب ِحیات ملا۔ یہی وہ آفتابِ ہدایت تھا جس کی ضیا پاش کرنوں نے انسانی سماج پر صدیوں سے پڑے ظلمتوں کے دبیز پردوں کو چاک کرکے ہر سو روشنی پھیلائی۔ یہی تو نظام زندگی تھا، علماے سیاسیات آج جس کے انسانی تمدنی تاریخ کے پہلے باضابطہ نظام ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ۔ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق راہنمائی کرنے والا یہی ضابطہ حیات تو تھا جس کا نفاذ انسانوں کی فلاح، خیروبرکت، ترقی و خوشحالی، امن وسلامتی کا وہ دور لایا جسے تاریخ بے حد فخر کے ساتھ ’خلافت ِراشدہ‘ کا تاجِ زرّیں پہناتی ہے۔ یہی وہ مقدس دین تھا جس کی برکتوں سے عرب کے صحرا نشینوں نے عجم، افریقہ، اندلس، خراسان، کاشغر اور سندھ میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی وہ نورانی شمعیں روشن کیں کہ جن کی مستعار کرنوں نے خوابِ جہالت کے مزے لیتے ہوئے وحشی یورپ کو بیدار کیا۔ یورپ کا کوئی منصف مزاج مؤرخ انسانیت پر عرب کے ان بادیہ نشینوں کے اس احسانِ عظیم کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مگر افسوس ’صراطِ مستقیم‘ کی روشنی میں سفر کرنے والے منزل سے دور ہوکر مادّیت، دنیا داری، لہو ولعب، جاہ و حشمت، انتشار اور گمراہی کی ایسی پگڈنڈیوں پر چل نکلے کہ بھٹکنا ان کا مقدر ٹھہرا اور پھر ان کے قدم ایسے ڈگمگائے کہ ان کے لرزیدہ ہاتھوں میں نور وآگہی، ہدایت و روشنی کے پرچم قائم نہ رہ سکے۔ دنیا کو ’آفتابِ ہدایت‘ کی تجلّیوں سے منور کرنے کی |