کرنے کیلئے حسب ِموقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں ۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت ﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ وَالاخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقٰی﴾(النساء:۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اَشعار بیان کئے ہیں : ولا خير فی الدنيا لمن لم يکن له من اللّٰه فی دار المقام نصيب فان تعجب الدنيا رجالا فإنها متاع قليل والزوال قريب[1] ”اس شخص کے لئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں ۔ گویا دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سا فائدہ ہے اور وہ بھی ختم ہونے والاہے“ آیت ﴿وَإنِّی لاَظُنُّکَ يٰفِرْعُوْنُ مَثْبُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل:۱۰۲) میں لفظ مثبورکے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں : إذا جار الشيطن فی سنن الغی و من مال ميله مثبور[2] ”جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے اور پھر جو لوگ بھی اس کے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔“ لغت ِعرب سے استدلال ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ تفسیرمیں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اَقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً ﴿فَقَلِيْلاً مَّا يُوٴمِنُوْنَ﴾(البقرة:۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے، جیسے عرب کہتے ہیں ”قلما رأيت مثل هذا قط“ مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا“[3] ﴿يَسْئلُوْنَکَ مَاذَا أحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَکُمُ الطِّيِّبٰتِ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِيْنَ﴾ (المائدة:۴) کی تفسیر میں لفظ ’جوارح‘ کو زیربحث لاتے ہوئے لکھتے ہیں : ”شکاری حیوانات کو ’جوارح‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ ’جرح‘ سے مراد کسب او رکمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں : فلان جرح أهله خيراً یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کے لئے بھلائی حاصل کرلی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے: فلان لا جارح له ”یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں “[4] جمہور مفسرین اور ابن کثیر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں متقدمین علماءِ تفسیر کے مختلف اَقوال کا قدرِ مشترک تلاش کرکے اس کو ہم معنی |