Maktaba Wahhabi

77 - 79
صریحاً خلاف ورزی پر مبنی کسی بھی قانون کو نافذ کرنے کی اب تک جراءت نہیں ہوئی ہے۔مثلا ًپاکستان کے کئی حکمران شراب نوشی میں مبتلا رہے ہیں لیکن پاکستان میں شراب نوشی کو جائز قراردینے کا حوصلہ کسی کو بھی نہ ہوا۔پاکستان میں ابھی تک سودی نظام رائج ہے۔ مگر کسی بھی صدر یا وزیر اعظم یا کسی فوجی حکمران نے سود کو جائز قرار دین کی ہمت نہیں کی۔سودی نظام کو جاری رکھنے میں مختلف تاویلات سے کام لیا جاتارہا ہے اور مستقبل میں غیر سودی نظام رائج کرنے کے وعدوں پر عوام کو مسلسل ٹرخایا جاتا رہا ہے۔اگر سیکولر ازم کو پاکستان کی نظریاتی اساس تسلیم کرلیا جائے تو پھر شراب نوشی اورسودی کاروبار کو اگر کوئی جائز قرار دیتا ہے تو اس کو چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ 2۔پاکستان کا سیکرلر طبقہ جو آج کل سیکولر ازم نافذ کرنے کامطالبہ کررہاہے اور سیکولرازم کو محض "ریاستی غیر جانبداری" کا نام دیتاہے۔اگر اسے مکمل اقتدار مل گیا تو پھر یہ محض غیر جانبدار نہیں رہے گا۔دینی طبقہ علماء اور اسلام پسندوں کے خلاف یہ جس طرح کی شدید نفرت کرتے ہیں ،اس کا عملی مظاہرہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد سامنے آجائے گا۔ترکی اور دیگر اسلامی ممالک میں لادینیت پسندوں نے علماء کو جس بہیمانہ تشدد اور ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا وہ اسلامی تاریخ کا تاریک ترین باب ہے۔جب لادینیت پسند اقتدار میں نہیں ہوتے تو یہ برداشت اور رواداری کے ترانے گاتے ہیں ،مگر اقتدار میں آکر ان پر وحشت اور بربریت غالب آجاتی ہے۔ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔1998ء میں ترک پارلیمنٹ کی رکن ایک خاتون محترمہ مردہ کی محض اس جرم کی پاداش میں نہ صرف پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کردی گئی بلکہ انہیں ملک بدر بھی کردیا گیا کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں سرپر سکارف لے کرآئی تھیں جو کہ اسلامی خواتین کے شرم وحیا کی علامت ہے ۔ترکی کے بظاہر مسلمان مگر اصل میں روشن خیال لادینیت پسندوں کو ان خواتین پر توکوئی اعتراض نہیں ہے۔جو اسمبلی میں یورپی لباس اسکرٹ وغیرہ پہن کر آتی ہیں ۔مگر ایک خاتون رکن کے سکارف پہننے سے ان کا سیکولر خطرے میں پڑ جاتاہے۔ 3۔یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگرچہ اقتدار کی قوت سے لوگوں کے دلوں سے اسلام سے وابستگی کا مکمل خاتمہ کرنا ممکن نہیں ہے جیسا کہ سوویت یونین کی سنٹرل ایشیاء پر ظالمانہ اجارہ داری کے باوجود مسلمان ریاستوں سے اسلام کو ختم نہیں کیا جاسکا۔اور جیسا کہ اتاترک اور اس کے سیکولر جانشینوں کی تمام تراسلام دشمن کاروائیوں کے باوجود ترکی میں ایک دفعہ پھر عوام میں اسلام پسندوں کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگر اقتدار پر سیکولر طبقہ قابض ہوجائے اور ان کا اقتدار طوالت اختیار کرجائے تو اس ملک میں اسلام پسندوں کی اخلاقی وسیاسی طاقت میں کمی آنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے فروغ کا سلسلہ بھی متاثر ہوتا ہے۔حکمران طبقہ کا اسلام کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ نوجوان نسل کے اذہان کو متاثر کردیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی اسلاف سے محبت میں کمی
Flag Counter