اس بنیادی تبدیلی کے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور سماجی اداروں پر جو اس کے اثرات مرتب ہوں گے اس کی تفصیل درج ذیل ہے: 1۔اسلام کے بنیادی اصول کے مطابق حاکم حقیقی صرف اللہ ہے۔قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس بنیادی حقیقت کوواضح کیاگیا ہے۔مثلا ارشادہوتا ہے: ﴿ إِنِ الْحُكْمُ إِلالِلَّهِ ﴾(یوسف)یعنی"حکم کسی کا نہیں مگر اللہ کا" ایک اور جگہ فرمایا:﴿ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ ﴾ "خبردار،اسی کے لیے حکم کرنا ہے اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے۔"(الانعام:62) اسلامی نظریہ کے مطابق حکومت اور سلطنت کی اصل مالک ذات باری تعالیٰ ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نمائندے کی حیثیت سے جہاں شریعت کے ترجمان ہیں وہاں مسلمانوں کے سیاسی سربراہ بھی ہیں ۔بعد میں آنے والے خلفاء اور مسلم حکمران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیاسی حیثیت کے ذمہ دار متصور ہوتے ہیں جو ایک مقدس امانت ہے۔اسلامی ریاست کا مقصود ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام دنیا میں اس کی شریعت کے مطابق نافذ کرے۔سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں : "اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ احکام کے اجراء اور قوانین کے وضع کا اصل حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔البتہ اس نے اپنی شریعت میں احکام اور قوانین میں جوکلیات اور قواعد بیان فرمادیئے ہیں ان کے تتبع سے اہل علم اور مجتہدین دین نئے نئے احکام جزئیہ مستنبط کرسکتے ہیں " وہ مزید لکھتے ہیں :۔ "اہل عقل اپنی ناقص عقل سے جو کچھ کہتے ہیں اگر وہ حکم الٰہی کے مطابق نہیں ہے تو گو اس میں کچھ ظاہری مصلحتیں ہوں مگر حقیقی مصلحتوں کے جاننے کے لیے امر غائب اور مستقبل کا صحیح علم ہونا ضروری ہے۔اوریہ انسان کے بس سے باہر کی بات ہے۔اس لیے حقیقی مصلحتیں اسی حکم میں ہیں جس کو خدائے عالم الغیب نے نازل فرمایا"(سیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم :جلد ہفتم،صفحہ :174) اسلام کے ان اساسی نظریات کا موازنہ اگر سیکولر ازم کے بنیادی تصورات سے کیاجائے،تو دونوں میں بعد المشرقین ہے۔سیکولرازم میں خدائی احکام کی بجائے عقل کی تاویلات کو اہمیت دی جاتی ہے۔سیکولرازم کی بنیاد ہی مذہب سے نفرت اور بیزاری پر مبنی ہے۔اگر سیکرلر ازم کو پاکستان میں نافذ کردیاجائے۔تو اس کا پہلا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام ریاست کا سرکاری مذہب نہیں رہے گا۔کیونکہ سیکرلرازم کے مطابق مذہب ایک شخصی معاملہ ہے جس کا ریاستی اُمور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جب مذہب کی سرکاری حیثیت ختم ہوجائے تو پھر قرآن وسنت کی قانونی ڈھانچے میں بالادستی بھی قائم نہیں رہے گی۔کوئی بھی قانون چاہے وہ قرآن وسنت سے کس قدر متصادم ہو۔اُسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔اب تک پاکستان میں یہ صورت ہے کہ اگرچہ اسلامی شریعت کا مکمل نفاذ عمل میں نہیں لایاگیا،جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ اسلام سے مخلص نہیں ہے۔مگر رائے عامہ کے دباؤ کے تحت پاکستان کے کسی بھی سیکرلر حکمران کو قرآن وسنت کی |