کے اس بیان پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس پر توہین رسالت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ مجلس احرار کے ترجمان نے بالکل صحیح تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا" حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام ناچتے ہوئے جنت سے نہیں نکلے تھے بلکہ احمد بشیر اس دنیا میں اچھلتا کودتا اور اودھم مچاتا ہوا آیا ہو گا۔جمعیت علمائے اسلام کے راہنما مولانا امجد خان نے بیان میں کہاکہ۔ "احمد بشیر بد بخت نے ( نعوذ باللہ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے۔ حضور نے کبھی رقص نہیں دیکھا یہ اس خبیث شخص نے الزام لگایا ہے۔" احمد بشیر نے مختلف افراد کے خاکوں پر مبنی ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان تھا "جو ملے تھے راستے میں "۔۔۔اس کتاب میں بے دین احمد بشیر نے علی الاعلان اور برملا اپنی شراب نوشی کی عادت کاذکر کیا۔ ایک سیکولرآدمی خونی رشتے ناطوں کے حوالے سے کس قدر بے حمیت اور بے غیرت بن جا تا ہے اس کا اندازہ احمد بشیرکے درج ذیل الفاظ سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے جو اس نے مذکورہ کتاب میں اپنی بہن پروین عاطف کے بارے میں تحریر کئے۔ "پروین میری بہن اس زمانے میں ایم اے میں پڑھتی تھی اور لاہورمیں رہتی تھی ۔ وہ ایسی حسین لڑکی تھی کہ میں اس کا بڑا بھائی ہو کر چوری چوری اس کی طرف دیکھتا اور سوچتا اللہ میاں !تونے یہ بت کس فرصت کی گھڑی میں گھڑا ہو گا۔ یہ چاند ہمارے صحن میں کیسے اتر آیا۔ پروین کے نین کاجل بن کالےاس کی کلائیاں گجروں بنا مہکتیں اس کے رخساروں کے گرد بھنورے منڈلاتے اب اس نیلے گنبد کی ساری ٹائلیں اکھڑ چکی ہیں مگر چھت کی گولائی پر ابھی چاندنی چھٹکتی ہے پروین کو اپنے حسن کی خوشبو کا احساس نہ تھا وہ ململ کے موٹے کپڑے پہنتی سر پر کھدر کی چادر لے کر بس میں بیٹھ جاتی اور اس طرح کتابوں کا بستہ لے کر واپس آجاتی ۔ اس کے ہم جماعت اس کے پیچھے گھر تک آتے مگر اسے کبھی پتا نہ لگا۔ وہ مس یوینورسٹی کے نام سے مشہور تھی مگر اس نے کبھی آئینہ نہ دیکھا "(روزنامہ خبریں 2/نومبر 1996ء اقتباس از مضمون اسرار بخاری بحوالہ راجپال کے جانشین ) قارئین کرام !یہ ہے مکروہ چہرہ اور گھٹیا کرداران لوگوں کا جو اس مملکت خدادادمیں اسلامی شریعت کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا الفاظ کسی سیکولرازم کے سرطان زدہ ایک جنسی حیوان کے علاوہ اور کون لکھ سکتا ہے یہ لوگ اخلاق اور دانائی کی ہر بات کی مخالفت کرتے ہیں مگر پھر بھی"دانشور" کہلاتے ہیں ۔اب ذرا غور فرمائیے پاکستان میں یہ اپنی پسند کا سیکولرازم نافذ کرنے میں کامیاب ہوجائیں توکیااس ملک کی اخلاقی بنیادیں قائم رہ سکیں گی؟ 3۔خالداحمد:پاکستان کے سیکولر طبقہ میں اچھی خاصی تعدادایسے صحافیوں اور"دانشوروں "کی ہے جو یا قادیانی ہیں یا قادیانیت کے زبردست حامی ہیں ان کے نام مسلمانوں سے ہیں اسی لیے ناواقف لوگ ان کے علم و حکمت اور استدلال سے دھوکہ کھا جاتے ہیں کہ شاید ان کا مؤقف خالصتاً علمی |