اسلام اور کمپیوٹر حافظ حسن مدنی انٹرنیٹ اور اسلام [ ای میل ، فوائد اور استعمالات ] کمپیوٹرکے حوالے سے ایک سال قبل بعض بنیادی نوعیت کی جو معلومات میں نے ایک مضمون میں مہیا کی تھیں ، ان کوتحریر کرتے وقت مجھے قطعاً احساس نہ تھاکہ اس کو اس قدر مفید سمجھاجائے گا کہ متعدد مجلات و رسائل ان مضامین کو دوبارہ شائع کریں گے۔ مضمون کے آخر میں ، میں نے قارئین سے تبصروں اور تجاویز کی بھی درخواست کی تھی۔ میں یہ ذکر کرکے مسرت محسوس کرتا ہوں کہ الحمدللہ اس موضوع پرقارئین کی کثرت سے آراء موصول ہوئی ہیں اور آج تک قارئین کی طرف سے اس سلسلے کو جاری رکھنے کا تقاضا کیا جارہاہے۔ انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے استعمال کو اگر دیکھا جائے تو کمپیوٹر سے وابستہ حضرات اس بات کو بچگانہ تصور کریں گے کہ آج کوئی شخص انٹرنیٹ کی افادیت کے بارے میں لکھے۔ انٹر نیٹ اس وقت اس قدر معروف او رکثیر الاستعمال ذریعہ ابلاغ بن چکا ہے کہ اس کے بارے میں معلوماتی مضمون لکھنا یا پڑھنا گویا دنیا سے ناواقفی اور کم علمی کے زمرے میں آتا ہے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جس طرح کوئی شخص ٹی وی کے استعمال کے بارے میں مضمون لکھے گا تو اسے حواس باختہ سمجھا جائے گا،عین اسی طرح انٹرنیٹ بھی کوئی جدید ذریعہ نہیں رہا جس کے بارے میں تعارف کی ضرورت محسوس کی جاتی ہو۔ یہی وجہ تھی کہ راقم الحروف عرصہ تک تضیع اوقات سمجھتے ہوئے اس بارے میں لکھنے سے ہچکچاتا رہا لیکن بڑے افسوس سے جس امر کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے وہ یہ کہ ہمارا دیندار طبقہ علم و سائنس سے اس قدر دور ہے کہ کویت سے عربی زبان میں چھپنے والے ایک معیاری دینی عربی جریدہ الفرقان کے مارچ ۲۰۰۰ئکے شمارے کو جو انٹرنیٹ کے بارے میں خصوصی اشاعت تھی، پڑھ کر مجھے شدت سے یہ احساس عود کر آیا کہ اس بارے میں بہت کچھ توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔نامعلوم ہمارا مبلغ علم یہی ہے یا سائنس و ٹیکنالوجی کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہوئے ہم غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل بلکہ ردّ ِعمل کا شکار ہیں ۔ مجھے الفرقان کے اس شمارے میں یہ پڑھ کر مسرت بھی ہوئی کہ عالم عرب کی نامور دینی شخصیات نے انٹرنیٹ کو استعمال کرنے اور اس کو ذریعہ تبلیغ بنانے بلکہ اس میں سرمایہ کاری کرنے کو عین اسلامی ضرورت قرار دیا اور دین داروں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر معلومات کے اس سمندر میں اپنا حصہ ڈالیں اور وصول بھی کریں ۔ دوسری طرف ہمارے بعض پڑھے لکھے دیندار حضرات ایسے بھی ہیں جو انٹرنیٹ کے مضر اثرات سے خائف ہو کر اس سے پہلو بچانے کا ہی مشورہ دیتے ہیں ۔ اس ساری بات چیت کا مقصد یہ ہے کہ دیندار طبقہ جدید سائنس سے استفادہ کرنے میں کوتاہی بلکہ مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ اسے مادّی وسائل کی کمی کی بنا پر حاصل نہ کر پاتے ہوں لیکن بحیثیت ِمجموعی دینی طبقہ کا رحجان بوجوہ جدید سے گریز اور نئی آنے والی چیزوں سے ہچکچاہٹ کا رہا ہے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان جدید اشیاء کی افادیت تسلیم کرکے ان کا استعمال کرتے رہے ہیں ۔ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے امت کے معروف مفتیانِ کرام کے فتاویٰ آجانے کے بعد ان وسائل علم سے لاپرواہی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہم اس سے قبل اپنے مضامین میں لکھ چکے ہیں کہ کسی سائنسی ایجاد /آلہ کا کوئی |