سیاسۂ شرعیہ پروفیسرعبدالرؤف ( اسلام کا طرزِ حکومت [ایک اُصولی بحث] اِسلامی تعلیمات کے ساتھ اِنسانی تجربات کا باہمی امتزاج کیسے ہو، یہ ایک بڑی اہم بحث ہے جو عقائد واَفکار کے میدان میں عقل ونقل کے حوالہ سے معروف رہی ہے ۔بیسویں صدی کے وسط میں مسلم معاشرے جب ایک لمبا عرصہ مختلف سامراجی قوتوں کے زیر نگین رہنے کے بعد آزادی کی انگڑائیاں لینے لگے تو انہیں لادین سیاسی نظاموں کو دین آشنا کرنے کی فکر بھی لاحق ہوئی تو یہ سوال ابھر کر ان کو پیش آیا کہ انسانی تاریخ کے ارتقائی جائزہ میں جو مختلف نظام ہائے حکومت سامنے آتے رہے، ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ اس کے لیے انداز تو یہ اختیار کیا گیا کہ انسانی تجربوں کو کچھ اسلامی تجریدی تصورات سے ہم آہنگ کر کے مروّجہ نظاموں کو اسلامی قرار دے لیا جائے۔ چنانچہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کا اقتدارِ اعلیٰ،انسان کی نیابت ِالٰہی کے فلسفے کی آمیزش کے علاوہ شورائی نظامِ حکومت کے دعوے سے کام لیا گیا تو دوسری طرف سیاسی نظاموں کی بحث میں منصوصOccupied اور غیرمنصوص Unoccupied (مباحات) کی تقسیم کر کے مباحات کا وسیع دروازہ کھولنے کا موقف اختیار کیا گیا۔حالانکہ مسئلہ صرف بنیادی فلسفے کا نہیں بلکہ عملاً یہ لادین سیاسی نظام جب سیکولر تصور سے تشکیل پاتے ہیں تو ان کا نقشہ اسلامی طرزِ حکومت سے یکسر مختلف ہوتا ہے ۔اسی کی طرف اشارہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے ؎ اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم چنانچہ ضرور ت اس بات کی ہے کہ مروّجہ سیاسی نظاموں کے تمام بنیادی عناصر کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پرکھا جائے پھر انسانی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دورِ حاضر میں اسلام نظام کا مکمل نقشہ تیار کیاجائے۔ زیر نظر مضمون میں بالخصوص اس پہلو کو تو سامنے نہیں رکھا گیا کہ مروّجہ نظاموں کے اساسی عناصر کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیاگیا ہو،تا ہم اوّل الذکر طرزِ فکر سے مروّجہ نظاموں کودین سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان میں اسلام کا بنیادی فلسفہ شامل کرنے کی ایک اچھی کوشش کی گئی ہے لیکن عملی طور پر جو معذرت خواہانہ اندازِفکر اختیار کیا گیا ہے وہ مقالہ نگار کی علمی مجبوری ہے کہ دینی تعلیمات کے رسوخ کے بغیر صرف سیاسیات کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے وہ اسلامی تحقیق نہیں رکھتے۔ہم انہیں توجہ دلاتے ہیں کہ وہ جدید سیاسیات کی بصیرت کے علاوہ اسلامی تعلیمات کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو انہیں نظر آئے گا کہ سیکولرنظاموں کا عملی نقشہ بھی اس طرح کی اِباحیت کے ذیل میں نہیں آتا جو معذرت خواہانہ اندازِ فکر کے شکست خوردہ ذہن نے قبول کر رکھی ہے ۔ (محدث) انسان کے لئے معاشرے میں رہنا ضروری اور لازمی امر ہے کیونکہ وہ فطری طور پر مدنی الطبع ہے، اسی لئے مسلم و غیر مسلم سیاسی مفکرین کا یہ کہنا ہے کہ’’ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے،جس طرح |