میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو ارشاد فرمائیں اسے بجالاؤں ۔اگر آ پ چاہیں تو ان سب کو ان دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کررکھ دوں "لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اللہ کی ذات سے امید کرتاہوں کہ ہوسکتاہے کہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا فرمائے جو اللہ کی توحید کا اقرارکریں گے اور شرک سے باز رہیں گے" (البدایہ والنہایہ:3/135) محاصرہ طائف : غزوہ حنین کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا جو کافی طول پکڑ گیا اور اس کے فتح ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے گزارش کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان کے حق میں بدوعافرمائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ مجھے بدوعا کی اجازت نہیں ۔تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباًعرض کیا تو پھر ہمیں ان سے لڑنے کی ضرورت نہیں ۔چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ اٹھا کر کوچ کرنےکا حکم فرمایا اور چلتے وقت بنو ثقیف (اہل طائف )کے حق میں یہ دعا فرمائی:اللّٰهم اهد ثقيفا وأت بهم ’’اے اللہ ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں میرے پاس پہنچا دے ۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرف قبولیت حاصل ہوئی اور تھوڑے عرصہ بعد سب لوگ مسلمان ہو گئے۔ غزوہ احد: غزوہ احد میں گھمسان کارن پڑا ۔تیروں کی بارش ہورہی تھی ۔مسلمانوں پر اچانک حملہ ہوا اور بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں ڈٹے رہے ہیں ۔چار دانت مبارک شہید ہو گئے سر مبارک زخمی ہوا چہرہ نور و اطہر خون آلود ہو گیا خون کے حلقے رخسار مبارک میں پیوست ہوگئے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس حالت کو دیکھ کر گزارش کی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ دشمنوں کے لیے بدوعا فرمائیں "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :"میں بدوعا اور لعنت کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ لوگوں کو دین حق کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔ اسی طرح جب قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کے پہاڑ توڑے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا:"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ان کے لیے بدوعا فرمائیں ۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا اور ان کے حق میں دعا کی۔(طبقات ابن سعد :2/115) ’’اللھم اھدِ ثقیفاً وآتِ بھم‘‘ "اللہ میری قوم کو ہدایت عطافرما یہ لوگ بے خبر ہیں " یہودیہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینا: فتح خیبر کے بعد چند روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں قیام پذیر رہے اس دوران زینب بنت حارث نے ایک بھنی ہوئی زہر آلود بکری ہدیہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چکھتے ہی کھانے سے ہاتھ روک لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی بشیر بن براء بن معرورکو بھی کھانے سے منع کر دیا جبکہ وہ کچھ کھا چکے تھے ۔یہودیہ عورت (زینب ) کو بلا کر تحقیق کی گئی تو اس نے جرم کا اعتراف کر لیا اور کہا کہ میں نے اس لیے ایسا کیا تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور اطلاع فرمادیں گے اور اگر آپ سچے نبی نہیں ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات پاجائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ بازپرس نہیں فرمائی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیتے تھے ۔لیکن آپ کے ساتھی پر زہر نے اثر کیا جس کی وجہ سے وہ انتقال کر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کو اس کے قصاص میں قتل کر دیا بیہقی کی روایت کے مطابق زینب اپنے جرم کا اقرار کرنے کے بعد اسلام لے آئی اور تمام حاضرین مجلس کو گواہ بنا کر کہنے لگی کہ مجھ پر آپ کا سچا ہونا واضح ہو چکا ہے اس لیے میں آپ کا دین قبول کرتی ہوں ۔(فتح الباری : 7/380) |