Maktaba Wahhabi

57 - 62
پہنچادیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاغُ ﴾ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کریمی:۔ آپ زندگی بھر انسانیت کی فلاح اورکامیابی کے لئے تڑپتے رہے۔صرف ایک ہی غم کھائے جارہا تھا کہ انسان جو اللہ کے راستے کو چھوڑ کر ہوئے شیطان کی راہ پر گامزن ہے،آخر کار ایسی آگ کے اس گڑھے میں گر جائے گا جو دنیا کی آگ سے ستر گناہ زیادہ گرم اور تکلیف دہ ہے۔وہاں انسان کاکوئی مددگار اورغمگسار نہیں ہوگا۔انسانیت کو اس آگ سے بچالیا جائے۔یہی احساس آپ کو دن رات چین سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔اسی پریشانی نے آ پ کی زندگی کو مضطرب کردیا تھا ۔اس کا اندازہ قرآن پاک کی اس آیت سے لگایا جاسکتاہے جس میں اللہ کی ذات نے اس کیفیت کا نقشہ کھینچا ہے: ﴿ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ﴾(سورۃ شعراء) "لوگوں کے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرڈالیں گے" اسی کیفیت کا ا ظہار تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے ان دشمنوں کے لئے بھی کبھی بددعائیں نہیں نکلتی تھی جنہوں نے آپ کو لہولہان کردیا اور ا پنے شہر سے پتھر مار مار کر نکال دیا۔دوسری جگہ سورہ شعراء میں ارشاد فرمایا: ﴿ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آَثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا﴾(الکہف:86) "اور ام المومنین حضر ت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کے مطابق میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی زندگی کا سخت ترین اورتکلیف دہ دن کون سا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ طائف کا دن تھا" طائف کا واقعہ: ابو طالب کی وفات کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوقریش مکہ نے اتنا ستایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو چھوڑ کر طائف کا ارادہ فرمایا تاکہ وہاں جاکر ان کو دائرہ اسلام میں لانے کی کوشش کریں ۔ثقیف کے تین سردار جو کے آپس میں بھائی تھے ان کے ہاں تشریف لے گئے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔لیکن ان کی طرف سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہ ملا بلکہ انہوں نے اوباش قسم کے لوگوں کو آ پ کے پیچھے لگادیا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھروں کی بارش کردی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کا نشانہ لے لے کر پتھر مارتے تھے۔جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں مبارک خون آلود ہوگئے۔اسی زخمی حالت میں ربیعہ کے دو بیٹوں عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اپنا چہرہ جھکائے بے حد غم کی حالت میں بیٹھا تھا اور مجھے کوئی ہوش نہ تھا۔اچانک میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو میں دیکھتاہوں کہ ایک بادل مجھ پر سایہ فگن ہے۔میں نے اس میں جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا جو مجھے پکار پکار کرکہہ رہے تھے کہ اللہ رب العالمین نے ان لوگوں کی ساری باتوں کو سن لیا ہے اور آپ کی مدد کے لئے پہاڑوں والے فرشتوں کو بھیجاہے۔آپ اسے جو حکم فرمائیں گے وہ پورا کرے گا۔پھر اس فرشتے نے مجھے سلام کیا اور فرمایا: ’’یا محمّد صلي اللّٰه عليه وسلم قد بعثنی اللّٰه ، ان اللّٰه قد سمع قول قومک لک و أنا مَلَکُ الجِبال قد بعثنی اِلیک ربک لتأمرنی ماشئت إن شئتَ تطبق علیھم الدکشبین فقال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم : أرجوا أن یخرج اللّٰه من أصلابھم من یعبد اللّٰه لا یشرک بہ شیئاً‘‘ "اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی ساری گفتگو کو سن لیاہے اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ ان لوگوں کے بارے
Flag Counter