بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر موت العالِم موت العالَم برصغیر پاک و ہند میں جن خاندانوں کو ان کی دینی، علمی اور تبلیغی مساعی کے باعث شہرتِ عام اور بقائے دوام کا مرتبہ حاصل ہے، ان میں بیسویں صدی میں روپڑی خاندان کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہ خاندان مسلکاً اہلحدیث فکر سے متعلق ہے۔ روپڑی خاندان میں علم و دعوت اور فکر و تحقیق کے اعتبار سے مرکزی شخصیت حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ (م 1964ء) کی ہے۔ مگر ان کی وفات کے بعد اس خاندان کے جس بزرگ کو دعوتِ دین، علم مناظرہ اور دینی سیاست میں بہت عزت و شہرت نصیب ہوئی وہ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ ہیں جبکہ ان کے بڑے بھائی شیریں بیاں خطیب اور ہر دل عزیز دینی رہنما حافظ اسمٰعیل روپڑی، محدث روپڑی رحمہ اللہ کی وفات سے قبل ہی انتقال کر چکے تھے۔ دینی حلقوں میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی طرح مولانا اسمٰعیل روپڑی رحمہ اللہ کی شیریں لسانی اور مؤثر خطابت کا بہت چرچا تھا اور لوگ میلوں دور سے گھنٹوں پر محیط آپ کے خطاب کو سننے چلے آیا کرتے۔ یہ دونوں نامور خطیب اور عالم سگے بھائی حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے بھتیجے ہیں۔ ان میں سے مؤخر الذکر کا سانحہ ارتحال 6 دسمبر 1999ء کو ہوا – إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ! حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کی شخصیت اور خدمات ان کی زندگی اور صحت کی حالت میں زبان زدِ عام تھیں مگر ان کی طویل بیماری کے بعد سانحہ ارتحال پر پرشکوہ جنازہ اور اقصائے عالم سے ملنے والے تعزیتی پیغامات سے نمایاں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلکِ اہلحدیث سے تعلق رکھنے والوں میں بالخصوص اور دوسرے مسالک کے پیروکاروں میں بالعموم کس درجہ قبولیت عطا کر رکھی تھی۔ عرب و عجم میں ان کی وفات پر جن تعزیتی جذبات کا اظہار کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بادشاہوں سے لے کر علماء کی صفوں تک ہر کسی نے ان کے داغ مفارقت کو محسوس کیا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کے علاوہ سعودی عرب کے شیوخ و حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں اور ان ملکوں کے علماء نے جو تعزیتی بیانات دئیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب و عجم میں ان کی دینی اور دعوتی خدمات کو کس بلند نظری سے دیکھا جاتا تھا۔ وطن عزیز پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور صحافتی حلقوں نے بھی ان کی دینی اور ملی خدمات کا بھرپور |