نقطۂ نظر سے ائمہ اربعہ کی طرف اب منسوب نہیں ہونے چاہئیں، کیونکہ دلائل کی رو سے ان کو کتاب و سنت کی تائید حاصل نہیں تھی۔ کچھ علما نے ائمہ اربعہ کے صرف ان مسائل کی تدوین و تہذیب اور ترتیب کا اہتمام فرمایا جو ان کے نقطۂ نظر سے صحیح معنوں میں ان کے مسائل اور افکار تھے۔ اور عام فہم بنانے کے لئے فقہی دلائل اور حکمت تشریح کے بیان کرنے سے عمداً احتراز کیا تاکہ کتاب طویل نہ ہو اور سمجھنے میں الجھاؤ پیدا نہ ہو۔ زیر تبصرہ کتاب اسی نقطۂ نظر کی حامل ہے۔ اس کتاب سے وہ عدالتیں اور حکام مدد لے سکتے ہیں جو اسلامی نقطۂ نظر سے سوچنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ مترجم، ناشر اور مصنف کے پیش نظر بھی تھا۔ کتاب کا اسلوبِ بیان واقعی عام فہم ہے۔ ہر ملک کے لوگوں کے لئے اس سے استفادہ کرنا کافی آسان ہو گیا ہے۔ اس حصہ میں صرف مندرجہ ذیل احکام کا ذکر ہے۔ شرکت، وکالت، حوالہ، ضمانت، اجارہ، ودیعت، عاریت، ہبہ (عطیہ) اور وصیت۔ بعض بعض مقامات پر ذیل میں اس کی مزید وضاحت بھی کر دی گئی ہے جو زیادہ تر حنفی مسئلہ سے متعلق ہے چونکہ مترجم اور ناشر کے سامنے پاکستان کی قانونی عدالتیں اور وکلاء ہیں اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ حنفی نقطہ نظر کی زیادہ سے زیادہ وضاحت کر دی جائے کیونکہ ملک میں انہی لوگوں کی اکثریت ہے۔ ہمارے نقطۂ نظر سے یہ کوشش دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اسلامی قانون کے مآخذ اصلیہ کی جو ضمانت دی گئی ہے، اس کی روح کے خلاف ہے۔ وکلاء اور قضاۃ (جج) کتاب و سنت کی ترجمانی کے پابند ہیں، کسی فقہی نقطۂ نظر کے نہیں۔ آپ اصل میں اس راہ پر ڈال کر وکلاء اور ججوں کا رخ صحیح سمت کے بجائے غلط رُخ کی طرف موڑنے کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ان میں دلائل سے بحث ہوتی تو شاید ان کے لئے محاکمہ کرنا ممکن ہو جاتا۔ ہاں فقہی مکاتب فکر کے سمجھنے کے لئے کتاب واقعی قابلِ ذکر ہے اور ان کی ایک جاندار خدمت بھی۔ جہاں تک مکمل آئین کی روح کی تسکین کا مسئلہ ہے، وہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کی طرف راست توجہ دینے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ مکمل آئین میں اسلامی ضوابط اور قوانین کی ضمانت دی گئی ہے۔ اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ بنیادی سرمایہ صرف عربی زبان میں ملتا ہے۔ لیکن لطف یہ ہے کہ ابھی تک حکومت نے اس کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا، عربی زبان کی تعلیم اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی تعلیم کے لئے احادیث |