صرف ارتداد کے مجرم تھے۔ اہلِ دانش و بصیرت کے نزدیک قتل کا حکم ہی اس امر کا ثبوت ہے کہ ارتداد جرم ہے۔ یہ امر خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ کوئی ایسا دینی مسئلہ جو اتنی وضاحت اور قطعیت کے ساتھ اجتماعی حیثیت اختیار کر چکا ہو اس کے خلاف جو کچھ کہا جائے گا اس میں حقیقت پوشی یا کذب بیانی سے کام لینا ہی پڑے گا۔ میرے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کتاب زیرِ نظر کے مؤلف نے بھی دیدہ و دانستہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش فرمائی ہو بظاہر ان کے معاونین نے ان کو غلط فہمی میں ڈال کر ان کی وہین کی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مفسرین و فقہائے اسلام میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جس نے ارتداد کو بدترین جرم اور مرتد کو مستوجب قتل نہ قرار دیا ہو۔ مؤلف کتاب نے اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ: ’’متقدمین مفسرین میں سے کم از کم ایک شخص علامہ ابن حیان اندلسی رحمہ اللہ اور عہد حاضر کے فقہا میں سے شیخ محمد شلتوت نے بوضاحت تمام اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ محض ارتداد کی پاداش میں قتل کا حکم انصاف کے خلاف ہے اور بتایا ہے کہ علامہ حلبی رحمہ اللہ اور علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے بھی اس خیال کی تائید فرمائی ہے کیونکہ ان کے نزدیک اسلام سے پھر جانے (یا ارتداد)کی کوئی سزا نہیں ہے۔‘‘ ص ۱۳۴ میں نہایت جرأت کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہ صریح غلط بیانی ہے کیونکہ ان اصحاب میں سے کسی نے بوضاحت تمام کیا اشارۃً کنایۃً بھی یہ نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف ابن حیان اپنی مبسوط تفسیر موسوعہ بحر المحیط میں آیت مَنْ یَرْتَدِدْ الخ الآیہ کے تحت فرماتے کہ اس آیت میں حبوط الدنیا کا مطلب ہے حبطه باستحقاق قتله قتله ج ۴ ص ۱۵۰ انہوں ے کہیں نہیں کہا کہ محض ارتداد کی پاداش میں قتل کا حکم انصاف کے خلاف ہے وہ تو اس کا ثبوت آیت قرآنی سے دیتے ہیں۔ اب علامہ محمود شلتوت کو لیجئے۔ ملت اسلامیہ کے مستند علماء کو علامہ موصوف کے بعض افکار سے اختلاف ہے۔ امور دینی میں نہ ان کی رائے وقیع مانی جاتی ہے اور نہ ان کو فقہا میں شمار کیاجاتا ہے۔ تاہم اس باب میں کہ مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے وہ بھی تمام علما سے |