Maktaba Wahhabi

24 - 46
اِذَا وُسِّدَ الْاَمْرُ اِلٰیْ غَیْرِ اَھْلِه َانْتَظِرِ السَّاعَةَ جب کام (اختیارات)نااہلوں کے سپرد ہو جائیں تو اس وقت قیامت کے آنے کا انتظار کرو۔ ۳۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کو تاوان اور چٹی سمجھا جانے لگے۔ یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی خوش دلی کی بجائے بکراہت کی جائے (تنگ دلی سے ادا کی جائے)۔ ایک حدیث میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ جو قوم بھی زکوٰۃ کو روک لیتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کو قحط میں مبتلا فرماتے ہیں۔ آج قحط کی وبا ہم لوگوں پر کچھ ایسی مسلط ہو گئی ہے ہ اس کی حد نہیں۔ ہزاروں تدبیریں اس کو ختم کرنے کے واسطے کی جا رہی ہیں مگر کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ بقول ؎ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ جب حق تعالیٰ شانہ کسی قوم پر ان کے گناہوں کی بدولت کوئی وبال یا مصیبت ڈالتے ہیں تو دنیا میں کس کی طاقت ہے کہ اس وبال کو ہٹا سکے۔ آپ لاکھ تدابیر کیجئے، ہزاروں قانون بنائیے جو چیز احکم الحاکمین مالک الملک کی طرف سے مسلط ہے وہ کسی انسان کے ہٹانے سے ہٹ نہیں سکتی جب تک کہ وہ ہٹانے کا فیصلہ نہ کرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو معالج حقیقی ہیں انہوں نے مرض بھی بتلایا ہے اور اس کا علاج بھی بتلایا ہے۔ اگر مرض دور کرنا مقصود ہو تو صحیح طریقۂ علاج جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے اس پر عمل کیجئے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم بھی اسی طرح ہے کہ جس مال میں زکوٰۃ واجب ہو گئی اور اس میں سے زکوٰۃ نہ نکالی گئی تو یہ زکوٰۃ جو سارے مال کے ساتھ مخلوط ہے۔ سارے مال کو ہلاک کر دے گی۔ یعنی اصلی مال بھی فنا اور ضائع ہو جائے گا اور تھوڑے نفع کی خاطر بہت سا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ۴۔ آدمی اپنی بیوی کا فرمانبردار بن جائے۔ ۵۔ اپنی ماں سے بدسلوکی اور نافرمانی کرنے لگے جائے۔ ۶۔ اپنے دوست سے حسنِ سلوک اور نیکی کرے۔ ۷۔ اپنے باپ سے بے وفائی اور نفرت برتے۔ یعنی دوستوں سے بے تکلفی اور والدین سے تکلف برتے جن باتوں سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم کو چودہ سو سال پہلے متنبہ کر دیا آج وہ حرف بحرف ہمارے سامنے آ رہی ہیں اور ہم ان کو تجربے بھی کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
Flag Counter