Maktaba Wahhabi

22 - 46
﴿مَالِکِ۱۱؎ یَوْمِ الدِّیْنِ ﴾(جو روزِ جزا کا مالک ہے۔) ______________________________________________ ۱۱؎ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ (جو روزِ جزا کا مالک ہے)دنیا کا یہ گھروندا بچوں کا کھلونا نہیں کہ بنایا بن گیا، ڈھایا ڈھ گیا، جوڑا جڑ گیا، توڑا ٹوٹ گیا اور بات آئی گئی ہو گئی! بلکہ یہ ایک قافلہ ہے جو طوعاً و کرہاً، ایک مقصد اور حکمت کے تحت، ایک حتمی اور متعین منزل کی طرف رواں واں ہے، جہاں پہنچ کر ہر ایک پورا پورا اپنے ‘سفرِ حیات‘ کا انجام دیکھے گا۔ اچھا رہا تو اچھا، بُرا رہا تو بُرا۔ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن کہہ کر اسی ’حقیقتِ منتظر‘ کی طرف توجہ دلائی کہ: جو دنیا خود رواں دواں ہے تمہیں اس میں کہاں رہنا ملے گا۔ یہ سفر کافی لمبا ہے، منزل بہت دور ہے، جو سو گئے رہ گئے، جو خالی ہاتھ پہنچے یا متاعِ کاسد لے کر سدھارے وہ مارے گئے۔ مانا! وہ بڑی رحمتوں والا ہے، پر اپنے اندر ہی کوئی کشش نہ ہوئی تو خاک کسی کو پیار آئے گا۔ رحمٰن و رحیم کے معنی، استحقاق سے بڑھ کر قدر دانی کے ہیں، اگر سرے سے استحقاق کا خانہ ہی خالی رہا تو اس سے ’بڑھ کر‘ کی توقع کوئی کیسے کرے گا؟ مالک تو وہ آج بھی ہے، لیکن ’میری تیری‘ کی آوازیں ابھی آتی ہیں، کل یہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائیں گی، اس لئے واقعۃً کے ساتھ عملاً بھی یہ سارے ہمہمے، سہارے اور حوصلے غائب ہوں گے اور صرف اسی ذاتِ برحق کا نقارہ بجتا ہو گا۔ اسباب و علل کی یہ سب کڑیاں معدوم ہو جائیں گی، کہیں سے کوئی صدا نہیں اُٹھے گی کہ ’’میں‘‘! بلکہ چار دانگ عالم یہی سنائی دے گا کہ: الٰہی! تُو ہی تُو! ﴿ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ﴾، اپنی اصلی شان میں اس دن جلوہ گر ہو گا جس کا سبھی لوگ مشاہدہ اور احساس کریں گے۔ آواز دینے پر بھی کوئی آواز نہیں آئے گی، بالآخر اسی کے نام کا بگل بجے گا، جس کا باقی رہا۔﴿ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمِ؟ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَّھَّارِ﴾ (قرآن)
Flag Counter