ہے۔ یہی جواب و سوال حضرت داؤد علیہ السلام سے ہوا۔ ص ۱۷۶۔ حضرت امام ابو بکر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ: الحمد للہ کہنا بھی تو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت ہے۔ اس لئے بظاہر جو آپ اس کی حمد کرتے ہیں وہ بجائے خود ’’واجب الادا‘‘ ایک نعمت ہو جاتی ہے، یعنی نعمتیں بڑھیں گی، حمد و شکر کا فریضہ اپنی جگہ آپ کے ذمہ رہے گا، مگر یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے آپ کے اس تہیہ کو ہی ’حمد و شکر‘ سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ حضرت عمرو بن عبد العزیز کے ایک گورنر نے ان کو لکھا کہ: رب کی نعمتیں بہت ہی ہو گئیں ہیں اور مجھے یہ احساس کھائے جا رہا ہے کہ میرا اہل و عیال اس کے شکر سے قاصر ہے، جواب دیا کہ: میں سمجھا تھا، کہ آپ نے اللہ کو سب سے بہتر سمجھا ہو گا ( )بندہ پر وہ جو بھی انعام کرتا ہے، وہ جب اس پر ’الحمد للہ‘ کہتا ہے، تو نعمت کے مقابلہ میں، اس کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے یعنی وہ جس سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرتا، بس تھوڑے کو بہت سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔ گھبرائیں نہیں! (ما حصل ص ۱۷۶) الحمد للّٰہ، کہہ کر اللہ تعالیٰ نے خود بھی اپنی حمد و ثنا کی ہے، حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی حمد و ثنا کیا کرتا ہے (کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِک)کیونکہ یہ خود ثنائی اسے زیب بھی دیتی ہے، زیب کیا، اپنی تعریف آپ ہی کر سکتا ہے۔ غور کیجئے! خدا ہو کر جب وہ خود اپنی حمد کرتا ہے تو دوسروں کو تو اس سے بھی سوا کرنی چاہئے!۔ بس اتنی جتنی بس میں ہو، اس کی صحیح شکل یہ ہے کہ زبان سے اس کے گُن گائیں اور عمل سے اس کی عبدیّت کا ثبوت دیں، ان شاء اللہ! ان حَمَّادُوْنَ میں آپ کا نام لکھ دے گا، جن کا تورات اور انجیل میں بھی ذکر آیا ہے (دارمی) ۶؎ لِلّٰہِ (اللہ تعالیٰ کا حق ہے)’’ل‘‘ کے معنی استحقاق کے ہیں۔ یعنی حقیقی حمد و ستائش کی مستحق ذات، صرف اللہ کی ذات ہے۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر جاذب اور کوئی نہیں، نہ اس سے بڑھ کر کوئی اَن تھک داتا، کارساز اور محسن ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر یا اللہ کے نام پر، ورے ورے یا پرے پرے، دنیا اس وقت غیر اللہ سے ناطے جوڑتی ہے، جب باریک بین نگاہ ٹھوکر کھا جاتی ہے، جو نگاہ حسن شناس اس کے ’حسنِ لا یزال‘ اور اس کے حدود فراموش الطاف و افضال کے مطالعہ میں سدا مستغرق رہتی ہے، یقین کیجیے! وہ نگاہ، غیر اللہ کی خالی اور مستعار چکا چوند کے نظارہ سے ہمیشہ کے لئے فرصت پا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، جو ’’اللہ والے‘‘ ہوتے ہیں وہ پوری دنیا میں رہ کر بھی اس سے گریزاں گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ ۷؎ رَبِّ (پالنہار)یہ وہ ذات کریم ہے، جو سامان زیست کے ساتھ بتدریج نشوونما اور |