ابن الصّلاح‘‘ رکھا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الارشاد‘‘ میں اس کا اختصار کیا اور اس کا نام رکھا۔ ’’التقریب والتیسیر لمعرفة سنن البشیر النذیر۔‘‘ امام سیطی نے ’’تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی‘‘ کے نام سے اس اختصارِ کی شرح کی۔ اسی طرح علامہ عراقی رحمہ اللہ ، سخاوی رحمہ اللہ اور مقدسی رحمہ اللہ نے بھی اس کی شروحات لکھیں ۔ امام سیطی رحمہ اللہ نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام ’’التہذنیب فی الزائد علی التقریب‘‘ ہے۔ امام بدر بن جماعہ رحمہ اللہ نے بھی اس کا اختصار کیا اور ’’المنہل الروی فی الحدیث النبوی‘‘ نام رکھا۔ عز الدین محمد بن جماعہ نے بھی’’المنہج السوی فی شرح المنہل الروی‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی کتاب ’’الباعث الحثیث‘‘ میں اس کا اختصار کیا۔ اسی طرح علامہ علاؤ الدین المار دینی اور بہاء الدین اندلسی وغیرہ بہت سے علماء نے بھی اس کا اختصار کیا۔ علامہ عراقی رحمہ اللہ نے اسے اپنے ايضہ ميں منظوم کیا اور اس کی مطول و مختصر دو شرحیں لکھیں ۔ مختصر کا نام ’’فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث‘‘ ہے۔ اس شرح پر بہان الدین بقاعی رحمہ اللہ اور قاسم بن قطلو بنانے حواشی بھی لکھے۔ اول الذکر کے حاشیہ کا نام النکت الوفية بما فی شرح الالفية ہے۔ یہ مکمل نہیں بلکہ نصفِ کتاب تک ہے۔ [1] اسی طرح علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے بھی الفیہ عراقی کی شرح لکھی اور اس کا نام بھی ’’فتح المغیث فی شرح الفیۃ الحدیث‘‘ ہے۔ اس کے متعلق حاجی خلیفہ فرماتے ہیں : وھو شرح حسن لعله احسن الشروح [2] الشیخ زکریا انصاری رحمہ اللہ نے بھی الفیہ کی شرح لکھی اور اس کا نام ’’فتح الباقی بشرح الفیۃ العراقی‘‘ ہے۔ اس شرح پر علی بن احمد عدوی کا حاشیہ بھی ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی الفیہ کی شرح ’’قطر الدرر‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے علامہ عراقی رحمہ اللہ کے مقابلہ میں ایک اپنا الفیہ بھی لکھا ہے اور اس کو انہوں نے ۵ روز میں منظوم کیا تھا اور پھر انہوں نے ’’البحر الذی زخر فی شرح الفیۃ الاثر‘‘ کے نام سے اس کی شرح لکھی۔ نیز اس کی ایک شرح محمد محفوظ ترمسی نے بھی لکھی ہے جس کا نام ’’منہج ذوی النظر فی شرح منظومۃ علم الاثر‘‘ ہے۔ الفیہ عراقی کی ایک شرح قطب الدین خیفری نے ’’صعود المراتی‘‘ کے نام سے لکھی۔ اسی طرح علامہ زین الدین عینی، ابراہیم بن محمد حلبی اور ابو الفداء اسمٰعیل بن جماعہ نے بھی اس کی شروحات لکھیں ۔ ’’علوم الحدیث لابن الصلاح‘‘ کے گرد گردش کرتے ہوئے کتابوں کے اس انبار سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب کس قدر عظمت اور اہمیت کی حامل ہے۔ (باقی آئندہ) |