(سو اب مسلمان اپنے سے دوگنے لشکر کا مقابلہ کریں ) یعی اگر ۱۰۰ مسلمان ہوں تو دو سو کفار کا اور اگر ایک ہزار کی تعداد میں ہوں تو دو ہزار کافروں کا مقابلہ کریں ۔ اور اس قلتِ تعداد کے باوجود مسلمان اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے۔ کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کا حامی ہے۔ مندرجہ بالا آیات سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد کی نسبت کفار کی تعداد دوگنی سے زیادہ یعنی سہ چند یا چار گنی ہو تو مسلمانوں پر ان سے قتال فرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار سے کم ہو۔ ورنہ اگر مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزاریا اس سے زیادہ ہو جائے یعنی مسلمان اتنی کثرت میں ہوں کہ ایک علیحدہ قومی و ملکی حیثیت اختیار کر جائیں تو پھر خواہ کفار کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ ہتھیار پھینک دیں یا مقابلہ سے جی چرائیں ۔ بقولِ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : لَنْ یُّغْلَبُوْا اِثْنَا عَشَرَ اَلْفًا مِّنْ قِلَّةٍ [1] ’’یعنی بارہ ہزار (مسلمان فوجی) بوجہ قلت شکست نہیں کھا سکتے۔‘‘ اگر ہم اس کلیہ کو تسلیم کر لیں کہ ہر قسم کی طاقت کا سر چشمہ عددی قوت یا مادی وسائل نہیں بلکہ خود خالقِ کائنات کی ذاتِ اُقدس اور اس کی مشیت ہے تو پھر کثرت و قلّت کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے اور ایمانیات میں یہ ایسا عقیدہ ہے جس کا ہم ہر روز پانچوں نمازوں کے بعد اقرار کرتے ہیں ۔ |