مکہ آرہا ہے۔ کوئی حرمین سے کوفہ و بصرہ کا رُخ کر رہا ہے تو دوسرا عراق سے حجاز کے لئے رختِ سفر باندھے ہوئے ہے۔ اسی تحصیلِ علم کے شوق میں اگر کچھ لوگ شام، افریقہ، خراسان، جبال، آذر بائیجان سے آرہے ہیں تو دوسرے تبلیغ دین کے لئے ان علاقوں کا رُخ کر رہے ہیں ۔ گویا آفاقِ عالم میں علم کے چشمے جاری ہو گئے اور پیاسے سفر کی کلفتوں اور دیار کی الفتوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے تشنگی بجھانے کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس دورِ تابعین میں عالمِ اسلام کے طول و عرض میں وہ لہر پہر لگی کہ ہر ایک دیوانہ وار اس کی طرف چلا آیا۔ حتیٰ کہ سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک ایک حدیث کے لئے طول طویل پیادہ پا سفرکیے۔ [1] صحابہ کرام اور بڑے بڑے تابعین نے طالبانِ علم سے نہ تو کسی قسم کا بخلِ علمی روا رکھا اور نہ ہی ان کی خدمت اور خیر خواہی میں کوئی کمی روا رکھی۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کی خوب حفاظت کی استوصوا بھم الخیر یعنی طلب علم کے لئے آنے والوں کے بارے میں میری طرف سے بھلائی کی وصیت پلے باندھ لو۔ رحلہ محدثین و مفسرین: اگرچہ حدیث قرآن کی ہی تفسیر کا نام ہے۔ کیونکہ اس بات سے کوئی صاحبِ فہم و بصیرت مسلمان انکار نہیں کر سکتا کہ کتاب اللہ کی ہی عملی تعبیر اور اسی کا کامل و مثالی نمونہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جس طرح کتاب اللہ کی قراءۃ و تلاوۃ کے اعتبار سے اسے قرآن کہتے ہیں اسی طرح سنت (طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی روایت کے لحاظ سے اسے حدیث کہتے ہیں ۔ [2] |