حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی اپنے شوہر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے نہیں بنتی، ہر طریقہ آزمایا جاتا ہے، ہر قوّتِ برداشت سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن میاں بیوی کے متفرق ذہن کوئی بات قبول نہیں کرتے اور بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دیتے ہیں ۔ اس طلاق کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک پر کیا اثر ہوا ہو گا۔ اوّل تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مصلحتِ دینیہ کو صدمہ پہنچا جس کے استحکام کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانے بھر سے ٹکر لی تھی، دوم زینب رضی اللہ عنہا اور ان کے خاندان والوں کی اطاعت اور اس اطاعت کے ضمن میں ان کے آماجِ مصیبت ہونے کا واقعہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پرور قلب کے لئے کچھ کم صبر آزما نہ تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آسمانی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرماتے ہیں کہ زینب رضی اللہ عنہا ک قلبِ محزون کو اطمینان اور تسلی صرف اسی صورت حاصل ہو سکتی ہے کہ حضور صلعم خود ان سے عقد فرما لیں ۔ رسم و رواج کی زنجیریں دوبارہ کھڑکھڑاتی ہیں ، تبنیت کا بت مجسمِ احتجاج بن جاتا ہے، سماج اور معاشرہ کی شوریدہ سر لہریں دوبارہ اس چٹان سے ٹکرانے لگتی ہیں لیکن خدا کا حکم پورا ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اُمّ المؤمنین ہونے کا شرف عنایت فرما دیتے ہیں ۔ اللہ اکبر! مصالح دینی کا یہ مرقع، جس کے اس فعل حسنہ سے متبنیٰ گری کی جڑیں کٹ گئیں اور تبنیت و تثلیث [1]کا بت چکنا چور ہو کر سمندر میں غرق |