زمین دینے کو بالکل جائز سمجھتے تھے۔ امام ابو یوسف لکھتے ہیں ، اجارۃ أرض بیضاء بدر اھم مسماۃ سنۃ اؤ سنتین نھذا جائز والحزاج علی رب الارض فی قول أبی حنیفۃ رضی اللّٰه عنہ وان کانت أرض شر فالعشر علی رب الارض وکذالک قال ابو یسف فی الاجارۃ الخراج اما العشر فعلی صاحب الطعام۔ [1] ترجمہ: ’’سفید زمین کو مقررہ نقد دراہم کے عوض سال یا دو سال کے لئے ٹھیکہ پر دینا جائز ہے اور خراج مالک زمین کے ذمہ ہو گا اور اگر زمین عشری ہے تو عشر مالک زمین کے ذمے ہو گا۔ یہ قول امام ابو حنیفہ کا ہے اور ابو یوسف نے بھی یہی بات ٹھیکہ والی زمین کے خراج کے متعلق کہی ہے، لیکن ان کے نزدیک عشری زمین ہو تو عشر وہ دے گا جو فصل لے گا۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ اپنی کتاب الخراج محولہ بالا کے صفحہ ۸۸ پر لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مزارعت کو مکروہ جانتے تھے، پھر صفحہ ۹۱ پر لکھتے ہیں کہ اگر کوئی اپنی زمین کسی کو مزارعت پر دیدے تو پھر امام ابو حنیفہ کے نزدیک مالک زمین کو چاہئے کہ کام کرنے والے کو اجرت دے اور خراج بھی مالک زمین کے ذمے ہو ا۔ اور زمین عشری ہو تو عشر بھی مالک زمین کو دینا پڑے گا۔ یعنی فصل مالک زمین لے لے گا۔ اور عشر ادا |