فرمائی تو ارشاد فرمایا:”یہ لوگ اپنا امیر خود تجویز کر لیں، میں اس کو عبد اللہ بن ابی سرح کی جگہ مقرر کر دوں گا۔ لوگوں نے محمد بن بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو متنخب کیا تو آپ نے ان کی تقرر ی اور عبداللہ بن ابی سرح کی علیحدگی کا فرمان لکھ دیا۔ یہ فرمان لے کر محمد بن بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت سے مہاجرین و انصار کے ساتھ تشریف لے گئے اور معاملہ ختم ہو گیا۔ اس واقعہ کے چند روز بعد مدنیہ میں ناگہاں شور اٹھا کہ مفسدین کی جماعتیں پھر مدینہ میں آگھسی ہیں اور یورش پیدا کر رہی ہیں۔ شورسن کرمسلمان اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے۔ دیکھا کہ مدینہ کے تمام گلی کوچوں میں انتقام انتقام کا شور برپا ہے جب مفسدین سے ان کی حیرت انگیزواپسی کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرایساعجیب الزام لگایا کہ تمام لوگ دم بخود رہ گئے۔ انہوں نے کہا محمد بن بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیسری منزل میں تھے کہ وہاں سے خلافت کا ایک شترسوارگزراجونہایت تیز رفتاری کے ساتھ مصر کی طرف چلا جا رہا تھا۔ محمد بن بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رفیقوں نے اسے پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ تم کون ہو اور کہاں جا رہے ہو؟شترسوار نے کہا میں امیرالمومنین کا غلام ہوں اور حاکم مصر کے پاس جا رہا ہوں۔ لوگوں نے محمد بن بو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ ہیں حاکم مصر۔ شترسوار نے کہا یہ نہیں اور اپنے راستے پر چل دیا۔ لوگوں نے اسے دوبارہ پکڑ لیا اور جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کے خشک مشکیزہ کے اندرسے یہ خط ملاجس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مہر کے ساتھ یہ لکھا گیا تھا کہ محمد بن بو بکر رضی اللہ تعالیٰ اور ان کے فلاں فلاں ساتھی جس وقت بھی تمہارے پاس پہنچیں، انہیں قتل کر دیا جائے اور ہر |