Maktaba Wahhabi

64 - 244
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے قدموں پر گر رہے تھے۔ آپ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ پر کھڑا کر دیا اور خود وہیں زخموں کے صدمہ سے زمین پر گر پڑے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ امیرالمومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے تڑپ رہے تھے۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا لیکن آخر وہ پکڑا گیا اور اسی وقت اس نے خودکشی کر لی۔ حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔ آپ نے سب سے پہلے یہ دریافت فرمایا کہ کہ میرا قاتل کون تھا؟لوگوں نے عرض کیا فیروز۔ اس جواب سے چہرہ انور پر بشاشت ظاہر ہوئی اور زبان مبارک سے فرمایا:الحمد للہ!میں کسی مسلمان کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ زخم چنداں کاری نہیں، اس لئے شفا ہو جائے گی چنانچہ ایک طبیب بلایا گیا، اس نے نبیذ اور دودھ پلایا، مگر یہ دونوں زخم کی راہ سے باہر آ گئیں۔ اس سے تمام مسلمانوں پرافسردگی طاری ہو گئی اور وہ سمجھے کہ اب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانبر نہ ہو سکیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تنہا زخمی نہیں ہوئے، ایسامعلوم ہوتا کہ پورا مدینہ زخمی ہو گیا ہے۔ خلافت اسلامیہ زخمی ہو گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ خوداسلام پاک زخمی ہو گیا ہے۔ غم میں ڈوبے ہوئے لوگ آپ کی عیادت کے لئے آتے تھے اور بے اختیار آپ کی تعریفیں کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور بے اختیار آپ کے فضائل و اوصاف بیان کرنے لگے مگر ارشاد فرمایا:اگر آج میرے پاس دنیاکاسونابھی موجود ہوتا تومیں اسے خوف قیامت سے رستگاری حاصل کرنے
Flag Counter