حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز صبح سویرے مجھے شک ہوا کہ سامنے کے جھونپڑے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما ہیں۔ پھر خیال آیا کہ امیرالمومنین کا یہاں کیا کام؟دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ یہاں ایک نا بینا ضعیفہ رہتی ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ اس کی خبرگیری کے لئے آتے ہیں۔ یہ تھی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روزانہ زندگی۔ اللہ کا بے پناہ خوف، مسلمانوں کی بے پناہ خدمت، شب و روز مصروفیتیں، ان سب پرمستزادیہ کہ ایک رات بھی پاؤں پھیلا کر نہ سوتے تھے اور ایک وقت بھی سیرہو کر نہ کھاتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جسم پاک روز بروز تحلیل ہوتا گیا۔ قوت گھٹ گئی، جسم مبارک سوکھ گیا اور بڑھاپے سے بہت پہلے بڑھاپامحسوس کرنے لگے۔ ان ایام میں اکثر فرمایا کرتے :اگر کوئی دوسرا شخص بار خلافت اٹھاسکتا تو خلیفہ بننے کی بجائے مجھے یہ بہت زیادہ پسند تھا کہ میری گردن اڑا دی جائے۔ ” 23ھ میں کرمان، سجستان، مکران اور اصفہان کے علاقے فتح ہوئے۔ گویاسلطنت اسلامی کی حدودمصرسے بلوچستان تک وسیع ہو گئیں۔ اسی سال آپ نے آخری حج فرمایا۔ حج سے واپس تشریف لا رہے تھے، راہ میں ایک مقام پر ٹھہر گئے اور بہت سی کنکریاں جمع کر کے ان پر چادر بچھائی۔ پھر چت لیٹ کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دعا کرنے لگے۔ ’’خداوندا!اب میری عمر زیادہ ہو گئی ہے۔ میری قوی کمزور پڑ گئے ہیں اور میری رعایا ہر جگہ پھیل گئی ہے۔ اب تو مجھے اس حالت |