اپنابسترجمالیتے تھے۔ کبھی کسی درخت پر اپنا کمبل تان لیتے تھے اور دوپہر کاٹ لیتے تھے۔ 18ھ میں قحط پڑا۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بے قراری قابل دیدی تھی۔ گوشت، گھی اور تمام دوسری مرغوب غذائیں ترک فرما دیں۔ ایک دن اپنے بیٹے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھا توسخت خفا ہوئے۔ کہنے لگے :مسلمان بھوکے مر رہے ہیں اور تم میوے کھاتے ہو۔ چونکہ گھی کی بجائے روغن زیتون کھانا شروع کر دیا تھا، اس واسطے ایک روز شکم مبارک میں قراقر ہوا۔ آپ نے پیٹ میں انگلی چبھو کر فرمایا جب تک ملک میں قحط ہے، تمہیں یہی کچھ ملے گا۔ عکرمہ بن خالد کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک وفد نے مل کر عرض کیا کہ اگر آنجناب ذرا بہتر کھانا کھایا کریں تو اللہ تعالیٰ کے کام میں اور زیادہ قوی ہو جائیں۔ آپ نے پوچھا:کیا یہ تمہاری ذاتی رائے ہے یاسب مسلمان اس کا تقاضا کرتے ہیں ؟عرض کیا گیا یہ سب مسلمانوں کی متفقہ رائے ہے فرمایا:میں تمہاری خیرخواہی کا مشکور ہوں، مگر میں اپنے دو پیش روؤں کی شاہراہ ترک نہیں کر سکتا۔ مجھے ان کی ہم نشینی یہاں کی لذتوں سے زیادہ مرغوب ہے۔ ” جو لوگ محاذجنگ پر ہوتے، ان کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے پوچھ کر انہیں بازارسے سوداسلف لا دیتے۔ اہل فوج کے خطوط آتے تو خود گھروں میں پھر کر پہنچاتے۔ جس گھر میں کوئی پڑھا لکھا نہ ہوتا واہں خود ہی چوکھٹ پر بیٹھ جاتے اور گھر والے جو کچھ لکھاتے لکھ دیتے۔ |