مدینہ کے گورنر بنائے گئے تھے تو اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدروسیع اور عظیم تھا کہ صرف اسی سے پورے تیس اونٹ لاد کر مدینہ منورہ بھیجے گئے۔ جسم اس قدر تر و تازہ تھا کہ ازار بند، پیٹ کے پٹھوں میں غائب ہو جاتا تھا۔ لباس نعم اور عطریات کے بیحد شوقین تھے۔ نفاست پسندی کا یہ حال تھا کہ جس کپڑے کودوسرے لوگ آپ کے جسم پر ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے، اسے اپ دوبارہ نہیں پہنتے تھے، چارچارسوروپے کی قیمت کا کپڑا حاضر کیا جاتا تھا مگر آپ اسے خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ خوشبو کے لئے مشک اور عنبراستعمال کرتے تھے۔ رجاء بن حیوۃ(وزیر اعظم خلیفہ ولید)کا بیان ہے کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور خوش خرام شخص عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ جس طرف سے گزرتے تھے، گلیاں اور بازارخوشبوسے مہک جاتے لیکن جس دن خلیفہ اسلام بنائے گئے۔ آپ نے ساری جاگیریں اصل مالکوں کوواپس کر دیں اور فرش فروش، لباس و عطر، سازوسامان، محلات، لونڈی، غلام اور سواریاں سب بیچ دیا اور قیمت بیت المال میں داخل کر دی۔ آپ پاس لباس کا صرف ایک جوڑا رہتا تھا جب وہ میلا ہوتا، اسی کو دھو کر پہن لیتے تھے۔ مرض الموت میں آپ کے سالے نے اپنی بہن فاطمہ سے کہا: ’’امیرالمومنین کی قمیض سخت میلی ہو رہی ہے، لوگ بیمارپرسی کے لئے آتے ہیں، اسے بدل دو۔‘‘ فاطمہ نے یہ سنا اور خاموش ہو گئیں۔ بھائی نے جب پھر یہی تقاضا کیا تو فرمایا: ’’خدا کی قسم، خلیفہ اسلام کے پاس اس کے سواکوئی دوسراکپڑانہیں ہے، |