پاس موجود ہے۔ ‘‘آپ نے ارشاد فرمایا:ذمی کی زمین واپس کر دو۔ ولید کی سندکتاب اللہ پر مقدم نہیں ہو سکتی۔ "ایک عیسائی نے خلیفہ عبد الملک کے بیٹے ہشام پر دعویٰ کر دیا جب مدعی اور مدعا علیہ حاضر ہوئے تو آپ نے دونوں کو برابر کھڑا کر دیا۔ ہشام کا چہرہ اس بے عزتی پر فرط غضب سے سرخ ہو گیا۔ آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا:”اس کے برابر کھڑے رہو، شریعت حقہ کی شان عدالت یہی ہے کہ ایک بادشاہ کا بیٹا عدالت میں ایک نصرانی کے برابر کھڑا ہو۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے صرف اڑھائی سال حکومت کی تھی۔ اس مختصر مدت میں خلق خدا نے یوں محسوس کیا کہ زمین وآسمان کے درمیان عدل کا ترازو کھڑا ہو گیا ہے اور فطرت الٰہی خود آگے بڑھ کرانسانیت کو آزادی، محبت اور خوشحالی کا تاج پہنا رہی ہے۔ لوگ ہاتھوں میں خیرات لئے پھرتے تھے مگر کوئی محتاج نہیں ملتا تھا۔ لوگ ناظم المال کے پاس عطیات کی رقمیں بھیجتے مگر وہ عذر کر دیتے تھے کہ یہاں کوئی حاجت مند باقی نہیں رہا اور عطیات کوواپس کر دیتے تھے۔ عدی بن ارطاط والی فارس نے آپ کو لکھا کہ”یہاں خوشحالی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام لوگوں کے کبر و غرور میں مبتلا ہو جانے کا خطرہ ہو گیا ہے۔ ‘‘آپ نے جواب دیا”لوگوں کو اللہ کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دینا شروع کر دو۔ ‘‘ ایک طرف کروڑوں لوگ امن ومسرت اور راحت و شادکامی کے شادیانے بجا رہے تھے اور دوسری طرف وہ وجود پاک جس کی بدولت یہ سب کچھ ہوا تھا، روز بروز ضعیف و نزار ہوتا چلا جا رہا تھا، اسے دن کا چین میسرنہیں تھا، اسے رات کی نیند نصیب نہ تھی۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ |