کے عذاب سے تنگ آ کر روزانہ بھاگتے تھے اور حجاج بن یوسف کی صفوں میں شامل ہو جاتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ تعداددس ہزار تک پہنچ گئی۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دولخت جگر۔ ۔ ۔ حمزہ اور حبیب۔ ۔ ۔ بھی ان سے الگ ہو گئے اور حجاج کے ساتھ مل گئے۔ تیسرے بیٹے نے بہادرانہ مقابلہ کیا اور میدان جنگ میں شہید ہو گیا۔ اب ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی والدہ حضرت اسماء بنت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں مشورہ لینے کے لئے آئے۔ اس وقت حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی عمر100 برس سے زیادہ تھی۔ جسم میں جتنے مسام ہوتے ہیں، اتنے ہی ان کے دل و جگر پر داغ تھے۔ بیٹے نے کہا: اماں !میرے تمام ساتھی اور میرے بیٹے میراساتھ چھوڑ چکے ہیں صرف چند بندگان وفا باقی ہیں مگر وہ بھی حملے کا جواب نہیں دے سکتے۔ دوسری طرف دشمن ہمارے مطالبے کوتسلیم نہیں کر رہا ہے۔ ان حالات میں آپ کا مشورہ کیا ہے ؟ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہما:بیٹا!اگر تم حق پر ہو تو جاؤ اور اس حق کے لئے جان دے دوجس پر تمہارے بہت سے ساتھی قربان ہو چکے ہیں لیکن اگر تم حق پر نہیں ہو تو پھر تمہیں سوچناچاہیے تھا کہ تم اپنی اور دوسرے لوگوں کی ہلاکت کے ذمہ دار بن رہے ہو۔ ‘‘ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ:۔ اس وقت میرے تمام ساتھی مجھے جواب دے گئے ہیں۔ ‘‘ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہما:۔ ساتھیوں کی عدم رفاقت، شریف اور دیندارانسانوں کے لئے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ غور کرو کہ تمہیں اس دنیا میں کب تک رہنا ہے ؟حق کے لئے جان دے دینا حق کوپس پشت ڈال کر زندہ رہنے |