اپنے اسی خیال کے تحت ایک دن اس نے ایک بہت بڑا مجمع کیا اور ایک گرم جوش تقریر کی اور پھر مجمع عام سے پوچھا۔ عبد الملک:۔ ’’تم میں کون ہے جو ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا بیڑا اٹھائے ؟‘‘ حجاج:”یہ خدمت میں سرانجام دوں گا۔ ‘‘ عبد الملک:”کون ہے جو ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسرقلم کر لائے ؟‘‘ حجاج:”یہ خدمت میرے سپردکی جائے۔ ‘‘ یہ خدمت حجاج کے سپردکر دی گئی اور وہ 72 ھ میں ایک فوج گراں کے ساتھ مکہ معظمہ پر حملہ اور ہوا۔ حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حرم کعبہ میں پناہ گزیں تھے۔ حجاج نے حرم پاک کو چاروں طرف گھیرا اور آتش زنی اور سنگ باری کو اپنا وظیفہ حیات قرار دے لیا۔ گولے حرم کعبہ میں گر کراس طرح پھٹتے تھے، جیسے دو پہاڑ ٹکر کھاتے ہیں اور ٹکرا ٹکرا کر پرزہ پرزہ ہو جاتے ہیں۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے سکون سے آگ اور پتھروں کی برسات کا مقابلہ کرتے چلے گئے یہاں تک کئی مہینے ختم ہو گئے۔ جب نماز کا وقت آتا تو آپ صحن کعبہ میں قبلہ رو کھڑے ہو جاتے۔ آپ کے چاروں طرف پتھروں کی برسات شروع رہتی مگر آپ گرد و غبارسے زیادہ اسے اہمیت نہ دیتے یہاں تک رسدبالکل ختم ہو گئی اور فوج سواری کے گھوڑوں کو ذبح کر کے کھانے لگی۔ مکہ مکرمہ کے اندر قحط نے اس قدر شدت اختیار کر لی کہ ہردرودیوارسے فریاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھی فاقہ کشی |