دیا گیا۔ ‘‘ یزید کادستور تھا۔ روز صبح و شام کے کھانے میں علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ شریک کیا کرتا۔ ایک دن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کم سن بچے عمرو کو بلایا اور ہنسی سے کہنے لگا۔ "تواس سے لڑے گا۔ ” اور اپنے لڑکے خالد کی طرف اشارہ کیا۔ عمرو بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بچپنے کے بھولپن سے جواب دیا:”یوں نہیں ایک چھری مجھے دو اور ایک چھری اسے دو، پھر ہماری لڑائی دیکھو۔ ‘‘ یزید کھلکھلا کرہنس پڑا اور عمر بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں اٹھا کرسینے سے لگا لیا اور کہا:”سانپ کا بچہ بھی سانپ ہوتا ہے۔ ‘‘ یزید کی زود پشیمانی یزید نے اہل بیت کو کچھ دن اپنا مہمان رکھا۔ اپنی مجلس میں ان کا ذکر کرتا اور بار بار کہا:”کیا حرج تھا اگر میں خود تھوڑی سی تکلیف گوارا کر لیتا۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ رکھتا۔ ان کے مطالبہ پر غور کرتا، اگرچہ اس سے میری قوت میں کمی نہ ہو جاتی لیکن اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق اور رشتہ داری کی حفاظت ہوتی۔ خدا کی لعنت ابن مرجانہ(یعنی ابن زیاد)پرحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوجس نے لڑائی پر مجبور کیا۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرے ساتھ اپنا معاملہ طے کر لیں گے یامسلمانوں کی سرحد پرجا کر جہاد میں مصروف ہو جائیں گے مگر ابن زیاد نے ان کی کوئی بات نہیں مانی اور قتل کر دیا۔ ان کے قتل سے تمام مسلمانوں میں مجھے مبغوض بنا دیا۔ خدا کی لعنت |