ہی باپ نے میرا رشتہ کاٹا۔ میرا حق بھلایا، میری حکومت چھیننا چاہی۔ اس پر اللہ نے اس کے ساتھ وہ کیا جو تم دیکھ چکے ہو۔ ‘‘امام زین العابدین اس کے جواب میں یہ آیت پڑھی:۔ ﴿مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيرٌ (22) لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ﴾ تمہاری کوئی مصیبت بھی نہیں جو پہلے سے لکھی نہ گئی ہو۔ یہ خدا کے لئے بالکل آسان ہے، یہ اس لئے کہ نقصان پرافسوس نہ کرو اور فائدہ پر مغرور نہ ہو، اللہ تعالیٰ مغروروں اور فخر کرنے والوں کوناپسندکرتا ہے۔ یہ جواب یزید کو ناگوار ہوا۔ اس نے چاہا، اپنے بیٹے خالد سے جواب دلوائے مگر خالد کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ تب یزید نے خالد سے کہا:”کہتا کیوں نہیں۔ ﴿وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ﴾ پھر یزید دوسرے بچوں اور عورتوں کی طرف متوجہ ہوا، انہیں اپنے قریب بلا کر بٹھایا ان کی ہیئت خراب ہو رہی تھی، دیکھ کرمتاسف ہوا اور کہنے لگا:”ابن مرجانہ کا اللہ برا کرے اگر تم سے اس کا کوئی رشتہ ہوتا تو تمہارے ساتھ ایساسلوک نہ کرتا، نہ اس حال میں تمہیں میرے |