زحر بن قیس کے ہاتھ یزید کے پاس بھیج دیا۔ غار بن ربیعہ کہتا ہے۔ "جس وقت زحر بن قیس پہنچا، میں یزید کے پاس بیٹھا تھا۔ یزید نے اس سے کہا:کیا خبر ہے ؟”حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اٹھارہ اہل بیت اور ساٹھ حمایتیوں کے ساتھ ہم تک پہنچے، ہم نے انہیں بڑھ کر روکا اور مطالبہ کیا کہ سب اپنے آپ کو ہمارے حوالے کریں ورنہ لڑائی لڑیں۔ انہوں نے اطاعت پر لڑائی کو ترجیح دی چنانچہ ہم نے طلوع آفتاب کے ساتھ ان پر ہلہ بول دیا جب تلواریں ان کے سروں پر پڑنے لگیں تو وہ اس طرح ہر طرف جھاڑیوں اور گڑھوں میں چھپنے لگے جس طرح کبوتربازسے بھاگتے اور چھپتے ہیں۔ پھر ہم نے ان سب کا قلع قمع کر دیا۔ اس وقت ان کے رخسارغبارسے میلے ہو رہے ہیں ان کے جسم دھوپ کی شدت اور ہوا کی تیزی سے خشک ہو رہے ہیں اور گدھوں کی خوراک بن گئے ہیں۔ ‘‘ یزید رونے لگا راوی کہتا ہے۔ یزید نے یہ سنا تواس کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ کہنے لگا۔ "بغیر قتل حسین کے بھی میں تمہاری اطاعت سے خوش ہو سکتا تھا۔ ابن سمیہ(ابن زیاد)پر اللہ کی لعنت!واللہ! اگر میں وہاں ہوتا توحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ضرور درگزر کر جاتا۔ اللہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ قاصد کو یزید نے کوئی انعام نہیں دیا۔ [1] |