عورتوں سے ذرا بھی رشتہ سمجھتا ہے تو میرے بعد ان کے ساتھ کسی متقی آدمی کوبھیجناجواسلامی معاشرت کے اصول پران سے برتاؤ کرے۔ "ابن زیاد دیر تک حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھتا رہا۔ پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ رشتہ بھی کیسی عجیب چیز ہے۔ واللہ!مجھے یقین ہے کہ یہ سچے دل سے لڑکے ساتھ قتل ہونا چاہتی ہے۔ اچھا لڑکے کو چھوڑ دو، یہ بھی اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ جائے۔ [1] ابن عفیف کا قتل اس واقعہ کے بعد ابن زیاد نے جامع مسجدمیں شہر والوں کو جمع کیا اور خطبہ دیتے ہوئے اس اللہ کی تعریف کی جس نے حق کو ظاہر کیا، حق والوں کو فتح یاب کیا۔ امیرالمومنین یزید بن معاویہ اور ان کی جماعت غالب ہوئی۔ کذاب(حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشہور صحابی ہیں اور جنگ جمل و صفین میں زخمی ہو کر اپنی دونوں آنکھیں کھو چکے تھے ) کھڑے ہو گئے اور چلائے :اللہ کی قسم اے ابن مرجانہ!کذاب ابن کذاب تو تو ہے نہ کہ حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ’’ابن زیاد نے یہ سن کر انہیں قتل کر ڈالا۔‘‘ یزید کے سامنے اس کے بعد ابن زیاد نے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاسربانس پر نصب کر کے |